رسائی کے لنکس

اسلامی ممالک کی عوامی تحریکیں اور امریکی خارجہ پالیسی


اسلامی ممالک کی عوامی تحریکیں اور امریکی خارجہ پالیسی
اسلامی ممالک کی عوامی تحریکیں اور امریکی خارجہ پالیسی

ملائشیا کے سابق نائب وزیر اعظم انور ابراہیم کا کہنا ہے کہ مغرب کو اسلامی جماعتوں سے گبھرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ واشنگٹن میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ٕ کہ عرب ممالک میں تاریخی تبدیلی رونما ہو رہی ہے اور ان تبدیلیوں کے پیش نظر ٕٕمغربی دنیا اور خاص طور پر امریکہ کو اپنی خارجہ پالیسی کی سمت میں تبدیلی لانے اور عوام کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے وہاں مختلف نظریات رکھنے والی جماعتوں اور گروہوں سے روابط بڑھانے کی ضرورت ہے ۔

تیونس اور پھر مصر میں مظاہروں اور انقلابی تبدیلیوں کے بعد اب مشرق وسطی کے کئی اور ملکوں میں حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے ۔ ماہرین کا خیال ہے ان واقعات کے عرب دنیا پر دورس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ان تبدیلیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ملائشیا کے سابق نائب وزیر اعظم انور ابراہیم کہتے ہیں کہ جن لوگوں کو عرب دنیا کی خاموشی پر شکوہ تھا ، انہیں اب جواب مل گیا ہے۔

ان کا کہناتھا کہ کئی عشروں سے یہ سوال اٹھایا جاتا رہا ہے کہ مسلمان دنیا اور خاص طور پر عرب ممالک میں جمہوری اصلاحات کے لئے شور کیوں نہیں اٹھتا۔ ابھی تک تو ترکی اور انڈونیشیا ہی ایسے ممالک تھے جن میں متحرک جمہوری نظام موجود ہیں۔ مگر اب تیونس اور ٕمصر نے اس کا جواب دے دیا ہے ۔ عوام نے وہاں تبدیلی کا مطالبہ کر دیا ہے اور مطلق العنان راہنماوں کی کوشش ہے کہ عوام اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوں۔

واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک نیوامریکہ فاؤندیشن میں مسلمان دنیا کے بارے میں ایک مذاکرے کے دوران انور ابراہیم نے امریکہ اور مغربی دنیا پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے عرب دنیا میں ہمیشہ آمرانہ قوتوں کی حمایت کی ہے مگر اب انہیں خطے کے بارے میں اپنی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے عوام کی خواہشات کی حمایت کرنا ہوگی۔

ان کا کہناتھا کہ ان واقعات سے یورپ اور امریکہ کو سبق حاصل کر نا چاہیے۔ مسلمان دنیا میں یہ تاثر پایا جا تا ہے کہ مغربی ممالک مسلمان دنیا میں عوام کے جذبات اور خیالات کی پرواہ کئے بغیر آمر راہنماؤں کی حمایت کرتے آئے ہیں ۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ اب وہ تمام لوگوں ، آزاد خیال، قدامت پسند اور اسلامی جماعتوں کے ساتھ روابط بڑھائیں گےجو تیونس کے عوام اور مصریوں کی جذبات کی عکاسی کرتے ہیں ۔ اب ِٕمغرب اور خاص طور پر امریکہ کو اپنی خارجہ پالیسی اور اس کی سمت میں تبدیلی لانی چاہیے اور عوام کی خواہشات کی حمایت کرنی چاہیے۔

مغربی ممالک میں اسلامی جماعتوں کے بارے میں پائے جانے والے تحفظات کے بارے میں سابق نائب وزیراعظم کا کہنا ہے کہ یہ خوف بے جا ہے اس لئے کہ کئی مسلمان ممالک میں مذہبی جماعتیں پہلے سے موجود جمہوری نظاموں میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج کل اسلام مخالف جذبات اور اسلامی جماعتوں کے نامعقول ہونے کا بے حد تذکرہ ہوتا ہے ۔ میں اس سے متفق نہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ مختلف گروہوں کو الگ نہیں رکھ سکتے۔ آزادی اور جمہوریت کا مطلب معاشی انصاف اور قانون کی بالادستی ہے۔ کسی بھی گروہ کو سیاسی اور معاشرتی عمل میں شرکت سے روکنا بنیادی حق سے محروم کرنا ہے جو کہ ناانصافی ہے۔انڈونیشیا اور ترکی میں کئی اسلامی جماعتیں موجود ہیں مگر ان سے جمہوری نظام میں کوئی رکاوٹ نہیں پیدا ہوئی اور ملائشیا میںٕ ہم تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے زور دیا کہ مغربی ممالک کو سمجھ لینا چاہیے کہ آمرراہنماؤں کی بجائے مسلمان ممالک کے عوام زیادہ اہم ہیں، جنہیں صرف اپنے اپنے آمر حکمرانوں سے چھٹکارا ہی نہیں چاہئے بلکہ وہ احترام ، آزادی، انصاف اور قانون کی بالادستی پر مبنی نظام کے خواہشمند بھی ہیں۔

XS
SM
MD
LG