رسائی کے لنکس

ہندومت پر کتاب تنازع کا شکار، فروخت بند کرانے پر تشویش


فائل
فائل

اِس ہفتے ماوارئے عدالت ایک سمجھوتے میں، ’پینگوئین بُکس انڈیا‘ نے بھارت میں کتاب کی فروخت بند کرنے اور اُسے شیلفوں سے ہٹانے پر اتفاق کیا۔ تاہم، ادبی اور علمی حلقوں میں شور و غوغا بلند ہوا ، اور اِسے حکومت کی جانب سے آزادیِ اظہار پر ایک حملہ قرار دیا گیا

بھارت میں ایک اشاعتی ادارے، ’پینگوئین‘ کی جانب سےایک امریکی دانشور کی ہندو مت پر لکھی جانے والے کتاب کو فروخت کی غرض سے لائبریریوں کے بُک شیلف سے ہٹا لیا گیا ہے۔ تاہم، ادبی اور علمی حلقوں نے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔

انجنا پسریچہ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اِس اقدام پر جہاں ثقافتی عدم رواداری پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے، وہاں پبلشر کا کہنا ہے اُن کا یہ فیصلہ بھارتی قانون کی وجہ سے کیا گیا ہے۔

مصنفہ وینڈی ڈونِیگر کی کتاب، ’دی ہندو ز، این الٹرنیٹو ہسٹری‘ کے اشتہاری مواد میں کہا گیا ہے کہ یہ دنیا کے قدیم ترین مذہب کو سمجھنے کا ایک نیا راستہ ہے۔ ڈونیگر، امریکہ میں مقیم مذہب پر لکھنے والے ایک معروف دانشور ہیں۔

تاہم، ایک قدامت پسند ہندو گروپ ’شِکشا بچاؤ اندولن‘ کے دینا ناتھ بٹرا کے نزدیک ’یہ کتاب اشتعال انگیز اور بیہودہ ہے‘۔ چار سال قبل، اُنہوں نے یہ کہتے ہوئے اِس کتاب کے خلاف ایک قانونی جنگ کا آغاز کیا کہ اِس میں ہندو دیوتاؤں اور قومی شخصیات کی توہین کی گئی ہے۔

اِس ہفتے ماوارئے عدالت ایک سمجھوتے میں، ’پینگوئین بُکس انڈیا‘ نے بھارت میں کتاب کی فروخت بند کرنے اور اُسے شیلفوں سے ہٹانے پر اتفاق کیا۔

تاہم، پینگوئین کے اِس فیصلے سے ادبی اور علمی حلقوں میں شور و غوغا بلند ہوا ، اور اِسے حکومت کی جانب سے آزادیِ اظہار پر ایک حملہ قرار دیا گیا۔

بینگلور میں مقیم ایک مصنف، وکرم سمپتھ کا کہناہے کہ پینگوئین کے فیصلہ سے بہت سے مصنفین کی دل شکنی ہوگی، جو دو ایسے مٕوضوعات یعنی تاریخ اور مذہب پر کام کر رہے ہیں، جو بھارت میں مقدس و متبرک بن چکے ہیں اور ان پر صرف خوش کلامی کی جا سکتی ہے۔

اِس بارے میں سمپتھ کا کہنا ہے کہ یہ کیا بات ہوئی کہ ہم برسوں تک سخت محنت اور تحقیق کریں اور پھر ایک دن آپکو پتہ چلے کہ ناشر آپکو اس ویرانے میں تنہا چھوڑ گیا ہے۔ فنون ، کتابوں اور فلموں کے خلاف عدم روداری کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، اور ایک انتہائی غیر معقول اقلیت اس بات کا تعین کرتی ہے کہ کیا لکھا، بتایا اور دکھایا جانا چاہئیے۔

وکرم سمپتھ خود بھی قدامت پرست گروپوں کی جانب سے ہراساں کئے جانے کا شکار رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اُن کے لیکچروں کے دوران، شور شرابہ کر کے اِنہیں خاموش کرانے کی کوشش کی گئی، اور، بھارت کی ایک تاریخی شخصیت ٹیپو سلطان پر لکھی گئی ان کی تحریروں کی وجہ سے مشتعل ہونے والوں نے اُن کا پتلا جلایا۔

ممتاز و معروف مصنفین کی جانب سے، ایک عام سے گروپ کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر تنقید کا نشانہ بننے والے ’پینگوئین بُکس‘ نے اپنے فیصلے کی بنیاد ایک بھارتی قانون کو قرار دیا ہے، جس کے تحت کسی بھی مذہب کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا ایک جرم ہے۔

اپنے ایک بیان میں، پبلشر کا کہنا ہے کہ جِس سرزمین پر وہ کام کر رہے ہیں وہاں کے قانون کا احترام اُن پر واجب ہے، چاہے وہ کتنا ہی پابند کرنے والا یا پُر تعصب کیوں نہ ہو۔ پینگوئین کا کہنا ہے کہ اس قانون کی وجہ سے کسی بھی بھارتی ناشر کیلئے، آزادیِ اظہار کے بین الاقوامی معیار قائم رکھنا مشکل تر ہوتا جائے گا۔

دینا ناتھ بترا نے تو کتاب کی فروخت رکوانے اور شیلفوں سے اٹھوانے کیلئے عدالتوں سے رجوع کیا، لیکن بنیاد پرست ہندو اور مسلمان گروپ، مختلف آرٹ کے نمونوں پر ، جو اُن کے نزدیک قابل ِاعتراض ہوں، احتجاج کیلئے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں۔

سلمان رشدی کی کتاب’ سیٹینِک ورسز‘ کے خلاف مسلمان گروپوں کی جانب سے پُرتشدد مظاہروں کے بعد، اس پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اور معروف بھارتی مصور ایف ایم حسین مرحوم کو مجبوراً بھارت سے جانا پڑا تھا، کیونکہ بھارتی دیویوں کی مصورانہ عکاسی پر ، مشتعل بھارتی گروپوں نے اُن کے خلاف متعدد مقدمات دائر کئے تھے۔
ریاست گجرات نے، جوزف لیلیویلڈ کی تحریر کردہ موہن داس گاندھی کی، جنہیں عرف عام میں مہاتما گاندھی کہا جاتا ہے، سوانح حیات پر پابندی عائد کر دی تھی، کیونکہ کتاب میں اشارتاً کہا گیا تھا کہ گاندھی ہم جنس پرست تھے۔

مصنفین اور دانشور اِسے ایک تشویش کُن رجحان قرار دے رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایسے حملوں سے متبادل نظریات اور جمالیاتی آزادی صلب ہوتی جا رہی ہے۔

نئی دہلی میں قائم جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں قدیم تاریخ کی پروفیسر کم کم رائے نے اس کتاب کا ’ریویو‘ لکھا تھا۔ وہ کہتی ہیں

اُن کے بقول، ’میرے خیال میں، یہ کوئی ایسی اشتعال انگیز بھی نہیں ہے۔ تاکیدِ لفظی پر اختلافات ہیں، کچھ بھول چوک اور غفلت ہوئی ہے جس کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔ لیکن، انکی وجہ سے اس کتاب کی فروخت بند کروانے اور اسے شیلفوں سے اٹھوانے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ اور باقی چیزیں ذاتی سوچ کےمعاملات ہیں، اور ان کی مخالفت بھی ہو سکتی ہے۔ یہ صورتحال علمی کام کرنے والوں کیلئے گھٹن کا باعث ہے ، اور اس سے ملک میں علمی فضا تباہ ہو کر رہ جائے گی۔

تاہم، رائے کہتی ہیں کہ کتاب کے ہٹا لئے جانے پر علمی اور ادبی حلقوں اور اس کے ساتھ ساتھ ’مین سٹریم‘ اور سوشل میڈیا میں مچنے والے شور سے ان کا حوصلہ بلند ہوا ہے۔

لیکن، ’شکشا بچاؤ اندولن‘ جیسے ہندو گروپ اس سے بلکل متاثر نہیں ہوئے۔

دینا ناتھ بترا ، ایسی کتابیں،جن سے ہندوؤں کی دل شکنی ہو یا ان میں تاریخی غلطیاں ہوں، ان کے خلاف مہمات جاری رکھنے کا عزم کئے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب وہ ڈونیگر کی ہندو مت پر لکھی گئی ایک اور کتاب کے خلاف کاروائی کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اُدھر وکرم سمپتھ جیسے مصنفین، اتنے ہی پر عزم ہیں۔ وہ ایسے کسی دائرے میں محدود نہیں ہونا چاہتے جس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہو۔

وہ کہتے ہیں کہ ادبی حلقوں کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ ایسی سینسر شپ کے خلاف متحد ہو کر ایک موٴقف اپنائیں، کیونکہ کل اس کا شکار کوئی اور بھی ہو سکتا ہے۔
XS
SM
MD
LG