رسائی کے لنکس

شام تنازع، روسی صدر اور سعودی وزیرِ دفاع کی ملاقات


ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے بتایا کہ دونوں ممالک شام کے معاملات پر ایک دوسرے سے تعاون کرنے اور وہاں ایک "دہشت گرد خلافت" کا قیام ہر صورت روکنے پر متفق ہیں۔

سعودی عرب کے وزیرِ دفاع شہزادہ شیخ محمد بن سلمان نے روس کے صدر ولادی میر پیوٹن سے ملاقات کی ہے جس میں دونوں رہنماؤں نے شام کی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا ہے۔

مذکورہ ملاقات اتوار کو روس کے سیاحتی شہر سوچی میں ہوئی ہے جس میں دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ بھی شریک تھے۔

شہزادہ محمد سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان کے صاحبزادے بھی ہیں اور ان کی روسی صدر سے ملاقات کو انتہائی اہم اور دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطہ قرار دیا جارہا ہے۔

ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے بتایا کہ دونوں ممالک شام کے معاملات پر ایک دوسرے سے تعاون کرنے اور وہاں ایک "دہشت گرد خلافت" کا قیام ہر صورت روکنے پر متفق ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فریقین سمجھتے ہیں کہ اتوار کو ہونے والی ملاقات کے نتیجے میں شام کے معاملے پر دو طرفہ تعاون میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

سعودی عرب شام کے صدر بشار الاسد کا سخت مخالف اور ان کی حکومت کے خلاف بننے والے حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد اور باغی گروہوں کو مدد فراہم کرنے والا ترکی کے بعد خطے کا دوسرا بڑا ملک ہے۔

سعودی عرب اور اس کے اتحادی خلیجی ممالک امریکہ اور یورپی ملکوں کے اس موقف کے حامی ہیں کہ شام میں گزشتہ ساڑھے چار برسوں سے جاری خانہ جنگی کے حل کے لیے ضروری ہے کہ صدر بشار الاسد اقتدار چھوڑدیں۔

لیکن روس اور ایران مغربی اور عرب ملکوں کے اس مطالبے کی مخالفت کر رہے ہیں اور شامی حکومت کی ہر ممکن سفارتی، عسکری اور مالی مدد فراہم کرتے آئے ہیں۔

روس نے دو ہفتے قبل شام میں براہِ راست فوجی مداخلت کرتے ہوئے شدت پسند تنظیم داعش اور اسد حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے شروع کردیے تھے جس نے مغربی ملکوں کے علاوہ سعودی عرب کو بھی گہری تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

اتوار کو سوچی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے روسی وزیرِ خارجہ نے اعتراف کیا کہ سعودی عرب کو شام میں جاری روسی فوجی کارروائیوں کے "مقاصد پر تحفظات" ہیں۔

لیکن انہوں نے اپنی حکومت کے اس موقف کو دہرایا کہ روسی طیارے شام میں صرف شدت پسند گروہوں کو ہی نشانہ بنا رہے ہیں جن میں داعش کے علاوہ القاعدہ سے منسلک باغی گروہ 'جبہۃ النصرہ' بھی شامل ہے۔

سعودی وزیرِ خارجہ عادل الجبیر نے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے روسی صدر کو شام میں روسی کارروائیوں پر سعودی عرب کے تحفظات سے آگاہ کردیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ ان کاملک ان کارروائیوں کو روس اور ایران کے درمیان اتحاد کی علامت سمجھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملاقات میں"ہمارے روسی دوستوں نے وضاحت کی ہے" کہ ان کے حملوں کا مرکزی مقصد شام میں داعش اور دہشت گردی کے بڑھتےہوئے قدم روکنا ہے۔

XS
SM
MD
LG