رسائی کے لنکس

کیا قذافی تاریخ کا حصہ بننے جارہے ہیں؟


کیا قذافی تاریخ کا حصہ بننے جارہے ہیں؟
کیا قذافی تاریخ کا حصہ بننے جارہے ہیں؟

1969ء میں 26 سالہ معمر قذافی نے لیبیا کے سابق حکمران کے خلاف بغاوت کی قیادت کی تھی، اوراقتدار میں آنے کے بعد ایک جمہوری حکومت تشکیل دی تھی ۔ 1970 کی دہائی میں انہوں نے لیبیا، مصر اور شام کو فیڈریشن آف عرب ریپبکس کے نام سے یکجا کرنے کی کوشش کی تھی۔ اپنی 42 سالہ حکومت کے دوران معمر قذافی مشرقی ملکوں کے حکمرانوں کےلیے تشویش کا سبب رہے ہیں۔

شمالی افریقہ سے متعلق پالیسیوں پر سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے مشیر آئن لیسر کا کہناہے کہ وقت کے ساتھ ہم نے کئی معاملات پر لیبیا کا موقف بار بار تبدیل ہوتے دیکھا ہے۔ ایک زمانے میں لیبیاخود کو افریقی ملکوں میں شمار کرتا تھا، پھروہ مشرق وسطی ٰکے ملکوں میں شامل ہو گیا۔ پھر اس نے عالمی معاملات میں داخل ہونا چاہا۔ پھر ایک دم ہی اس نے اپنی نظر اندرونی معاملات کی طرف موڑ لی۔ یہ سب تبدیلیاں اچانک ہی واقع ہوئی تھیں۔

1980ءکی دہائی میں لیبیا اور امریکہ کے درمیان تنازعات بڑھتے رہے۔ امریکہ نے یورپ کے شہر مشرقی برلن میں واقع ایک ایسے کلب پر بمباری کا ذمہ دار لیبیا کو ٹھہرایا، جہاں امریکی فوجیوں کا آنا جانا رہتا تھا۔ لیبیا کے ساحلوں کے قریب واقع خلیج سدرہ تک امریکی بحریہ کی رسائی کےمعاملےپر بھی دنوں ملکوں کے درمیان اختلاف رہا۔

سابق امریکی صدر رونلڈ ریگن نے معمر قذافی کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے کہ برلن پر لیبیا کی بمباری کے جواب میں امریکہ نے لیبیا میں کچھ عمارتوں کو نشانہ بنایا ۔ قذافی تو بچ گئے، لیکن ان کی گود لی ہوئی ایک چھوٹی بچی ماری گئی۔

1988ء میں امریکی فضائی کمپنی پین ایم کی پرواز 103 سکاٹ لینڈ کے شہر لاکربی پر پرواز کے دوران دھماکے سے تباہ ہو گئی ۔ اس واقعے میں 270 افراد ہلاک ہوئے جس میں زیادہ تر امریکی تھے۔ کچھ سال بعد لیبیا نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے متاثرین کو معاوضہ دینے پر رضامندی ظاہر کی۔

جہاز کی تباہی کے الزام میں لیبیا کے ایک شہری محمد المگراہی کو 27 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ لیکن جب انسانی بنیادوں پررہا ئی پانے کے بعد وہ لیبیا واپس پہنچا ، تو صدر قذافی نے اس کا جوش و خروش سے استقبال کیا۔

مصر میں حالیہ مظاہروں کی کامیابی کے بعد لیبیا میں بھی صدر قذافی کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے ہیں اور صدر قذافی کو اب لیبیا کے بہت سے اہم عہدے داروں کی حمایت بھی حاصل نہیں۔

امریکہ میں لیبیا کے سفیر کہتے ہیں کہ میں موجودہ آمرانہ حکومت کی خدمات سے مستعفی ہوتا ہوں۔ لیکن میں عوام کی خدمت سے اس وقت تک استعفی نہیں دوں گا جب تک ان کی آواز پوری دنیا تک نہ پہنچ جائے۔ قذافی سے میرا مطالبہ ہے کہ وہ چلے جائیں اور ہمارے لوگوں کو امن سے جینے دیں۔

صدر قذافی نے لیبیا کے سرکاری ٹی وی پر خطاب کے دوران کہا کہ وہ اپنے ملک میں شہادت کی موت قبول کرنے کو تیار ہیں۔

خطاب کے دوران انہوں نے سیاسی فلسفے پر اپنی تحریر کردہ کتاب بلند کی جو لیبیا کے تمام سفارت خانوں میں مفت دستیاب ہے۔ کتاب کے پہلے باب میں جمہوری نظام کے مسائل کا حل پیش کیا گیا ہے۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے لیبیا کے ایک اہل کار علی ابوزعکوک کہتے ہیں کہ قذافی کا دور حکومت ختم ہونے کو ہے۔ ان کاکہناہے کہ ان کی حالیہ تقریر آخری تقریر ثابت ہوسکتی ہے۔ اب ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا کیونکہ اب وہ تاریخ کا حصہ ہی نہیں رہے۔

لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ لیبیا کے مختلف شہروں میں ہونے والےشدید مظاہروں کے باوجود قذافی حکومت چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔

XS
SM
MD
LG