رسائی کے لنکس

راولپنڈی حملے کی تحقیقات جاری، کئی مشتبہ افراد گرفتار


وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ایسے عناصر جو مذاکرات کی بات کرنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی بھی کر رہے ہیں ان کا دوہرا چہرہ نہیں چھپ سکتا اور یہ لوگ حکومت کو اصولوں پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے۔

پاکستان میں فوجی اعتبار سے اہمیت کے حامل شہر راولپنڈی میں پیر کو ہونے والے خودکش بم حملے کی تحقیقات جاری ہیں اور پولیس نے لگ بھگ 50 افراد کو حراست لیا ہے۔

پیر کو صبح شہر میں فوج کے صدر دفاتر ’’جی ایچ کیو‘‘ سے کچھ ہی فاصلے پر واقع آر اے بازار میں ایک خودکش بم حملے میں فوجی اہلکاروں سمیت کم ازکم 13 افراد ہلاک اور دو درجن سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

منگل کو پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے شہر کے مختلف علاقوں، فوجی کالونی، بنگش کالونی جنرل بس اسٹینڈ سے ملحقہ علاقے پیرودھائی سے مشتبہ افراد کو حراست میں لیا اور ان سے پوچھ گچھ جاری ہے۔

اطلاعات کے مطابق ان میں افغان باشندے بھی شامل ہیں اور دیگر افراد کے پاس ان علاقوں میں سکونت کا کوئی خاطر خواہ ثبوت یا شناختی کارڈز بھی نہیں تھے۔

آر اے بازار میں ہونے والے دھماکے کے ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی تھی۔

ابتدائی تحقیقات کے مطابق خودکش حملہ آور 18 سے 20 کی سال عمر کا نوجوان تھا جو ایک موٹر سائیکل پر سوار ہو کر جائے وقوع تک پہنچا اور وہاں موجود سکیورٹی اہلکاروں کے قریب خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔

اس علاقے اور اس کے قرب و جوار میں 2008ء اور 2009ء میں بھی بم دھماکے ہو چکے ہیں جب کہ شدت پسندوں نے فوج کے صدر دفاتر پر بھی حملہ کیا تھا۔

اس حملے میں کئی گھنٹوں تک سکیورٹی اہلکاروں کو یرغمال بنائے رکھا گیا اور بعد ازاں اعلیٰ فوجی افسران سمیت کم ازکم 12 افراد اس واقعے میں مارے گئے۔

وزیراعظم نواز شریف نے منگل کو راولپنڈی خود کش دھماکے میں زخمی ہونے والے افراد کی عیادت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں امن و امان برقرار رکھنا حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اس کے لیے انھوں نے مربوط اقدامات پر زور دیا۔

ادھر وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ریاست خود کش حملہ آوروں کے سامنے نہیں جھکے گی۔

سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک انٹرویو میں وزیردفاع کا کہنا تھا کہ ایسے عناصر جو مذاکرات کی بات کرنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی بھی کر رہے ہیں ان کا دوہرا چہرہ نہیں چھپ سکتا اور یہ لوگ حکومت کو اصولوں پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے۔

وزیراعظم نواز شریف کی حکومت دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے شدت پسندوں سے مذاکرات کو پہلی ترجیح قرار دیتے ہوئے یہ کہہ چکی ہے کہ ایسے عناصر کے خلاف طاقت کا استعمال آخری حربہ ہوگا۔
XS
SM
MD
LG