رسائی کے لنکس

افغانوں کی ملک بدری کا فیصلہ منسوخ کرنے کا مطالبہ


افغان سفیر عمر داؤد زئی پاکستانی وزیر خارجہ کےہمراہ (فائل فوٹو)
افغان سفیر عمر داؤد زئی پاکستانی وزیر خارجہ کےہمراہ (فائل فوٹو)

سفیر محمد عمر داود زئی نے کہا کہ افغانستان میں اقتصادی صورت حال میں بہتری آئی ہے، وہاں مزدوری کی اجرت میں بھی پاکستان کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہزاروں پاکستانی روزگار کی تلاش میں وہاں گئے ہوئے ہیں۔ ان کے بقول صحت اور تعلیم سے متعلق حالات میں بھی بہت بہتری آئی ہے۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ خیبر پختون خواہ میں غیر اندراج شدہ افغان مہاجرین کی تعداد تقریباً آٹھ لاکھ ہے اور ان کی نصف سے زائد آبادی پشاور اور اس کے مضافاتی علاقوں میں رہائش پذیر ہے۔

صوبائی حکام نے گزشتہ ماہ غیر قانونی طور پر مقیم ان افغانوں کو 25 مئی تک اپنے وطن واپس جانے کی مہلت دی تھی جس کے بعد مقامی قوانین کے تحت انھیں حراست میں لے کر سرحد پار افغان حکام کے حوالے کر دیا جائے گا۔

لیکن اسلام آباد میں افغان سفیر محمد عمر داود زئی نے صوبائی حکومت کی جانب سے دی گئی اس ڈیڈ لائن پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ پاکستانی وزرا سے رابطے تیز کر دیئے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ خیبر پختون خواہ کی حکومت یہ فیصلہ منسوخ کر دے۔

وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں افغان سفیر نے اس مطالبے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی ڈیڈ لائن کا اعلان کیا جاتا ہے پولیس اہلکار افغان مہاجرین کو بلا تفریق ہراساں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

’’پناہ گزین اندراج کے ساتھ یا پھر اندراج کے بغیر رہ رہے ہوں افغان حکومت کے لیے دونوں برابر ہیں اور دونوں کے ساتھ ایک جیسے برتاؤ کی ضرورت ہے۔‘‘

افغان سفیر نے کہا کہ اس مسئلے کو دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے اتفاق رائے سے حل کرنے کی ضرورت ہے اور افغانستان بھی چاہتا ہے کہ تمام پناہ گزین اپنے وطن واپس آ جائیں۔

’’ایک مشترکہ حکمت عملی کے تحت افغانوں کی وطن واپسی رضاکا رانہ اور باعزت طریقے سے ہو نا کہ انھیں ملک بدر کیا جائے۔‘‘

سفیر محمد عمر داود زئی نے کہا کہ افغانستان میں اقتصادی صورت حال میں بہتری آئی ہے، وہاں مزدوری کی اجرت میں بھی پاکستان کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہزاروں پاکستانی روزگار کی تلاش میں وہاں گئے ہوئے ہیں۔ ان کے بقول صحت اور تعلیم سے متعلق حالات میں بھی بہت بہتری آئی ہے۔

’’ لیکن افغان مہاجرین کے لیے سرچھپانے کی سہولیت مہیا کرنے کے سلسلے میں افغان حکومت کو ابھی مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

انھوں نے بتایا کہ پاکستانی حکام کے ساتھ ان کے مسلسل رابطوں کے نتیجے میں طرفین اس بات پر متفق ہو گئے ہیں کہ پناہ گزینوں سے متعلق افغانستان کے وزیر کی سربراہی میں ایک وفد جلد اسلام آباد آ کر اس معاملے کو حل کرنے کے لیے براہ راست بات چیت کرے گا۔

پشاور کے ضلعی انتظامی افسر سراج احمد خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کو ملک چھوڑنے کے لیے دی گئی مہلت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

’’ہم نے کمیٹیاں بنا رکھی ہیں جو اس قسم (غیر قانونی طور پر مقیم) کے لوگوں کے قواعد جمع کر رہے ہیں اور ڈیڈ لائن کے اختتام کے بعد ہر تھانے کی حدود میں ان کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جائے گا۔‘‘

اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کے خلاف پاکستانی حکام کی کارروائی کا احترام کرتے ہیں کیونکہ غیرقانونی تاریکین وطن پر قوانین کا اطلاق ہر حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

ان کے بقول درج شدہ افغان مہاجرین کے خلاف ایسے اقدامات اقوام متحدہ کے لیے یقیناً باعث تشویش ہوں گے لیکن پاکستانی حکام نے کسی بھی مرحلے پر قانونی طور پر مقیم افغانوں کے بارے میں ایسی کوئی کارروائی نہ کی ہے اور نہ ایسا کوئی عندیہ دیا ہے۔

XS
SM
MD
LG