رسائی کے لنکس

امریکہ کی 10 فی صد آبادی 'آئرش نسل' پر مشتمل: اعداد و شمار


کینساس سٹی، سنہ 1909۔
کینساس سٹی، سنہ 1909۔

ایک وقت تھا جب آئرش نسل کا ہونا معیوب بات تھی، آج زیادہ تر لوگ آئرش ورثے سے تعلق ظاہر کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ امریکی معاشرے میں آج آئرش لوگ یش پیش ہیں، وہ سب سے زیادہ سالانہ آمدن والے شعبوں سے منسلک ہیں، اور سینٹ پیٹرز ڈے سبھی بڑھ چڑھ کر مناتے ہیں

یہ سنہ 1800 کے اواخر اور1900 کے اوائل کا زمانہ تھا جب امریکہ میں پہلی بار آئرلینڈ کے تارکین وطن آکر آباد ہوئے۔ یہ لوگ انتہائی غربت کا شکار تھے، اس حد تک کہ امریکی معاشرے میں وہ افلاس کی علامت تھے، جنھیں اکثر و بیشتر نئے تارکینِ وطن اور کیتھولک مخالف جذبات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

آج امریکہ میں اُن کی تعداد تین کروڑ 30 لاکھ سے زائد ہے، اور وہ آئرش نسل سے تعلق پر فخر کرتے ہیں۔

آئرلینڈ کا ورثہ رکھنے والے اس حد تک امریکی معاشرے کا لازمی جُزو بن چکے ہیں کہ اب تک امریکی صدر بننے والوں کی نصف تعداد کا تعلق آئرش نسل سے رہا ہے۔

امریکہ میں آئرش نسل اتنے اثر کی مالک ہے کہ مارچ کے مہینے کو ’آئرش امریکن ہیریٹیج‘ کا مہینا قرار دیا گیا ہے، جسے ہر سال 17 مارچ کو ’سینٹ پیٹرک ڈے‘ کے طور پر ملکی سطح پر منایا جاتا ہے۔

New York
New York

’لائبریری آف کانگریس‘ کے مطابق، سنہ 1820 سے 1930کے دوران تقریباً 45 لاکھ آئرش لوگ امریکہ وارد ہوئے۔

سنہ 1850 تک آرئرش لوگ ملک میں تارکین وطن کا سب سے بڑا گروپ کہلاتا تھا، جنھوں نے امریکہ کے مشرقی ساحل اور جنوبی ریاستوں میں ڈیرہ ڈال رکھا تھا۔

آج ہر 10 میں سے ایک امریکی آئرش ہونے کا دعوے دار ہے، یہ تعداد اُس سے کہیں زیادہ ہے جس کی پیش گوئی آبادی کے اعداد و شمار پر نظر رکھنے والے کیا کرتے تھے۔

مثال کے طور پر، سنہ 1980 کی امریکی مردم شماری کے مطابق، جو برادریاں اِمی گریشن اور بچوں کی پیدائش کے اعداد پر خاص نظر رکھتے ہیں وہ آئرش نسل کے لوگوں کی طور طریقے کو ایک جداگانہ حیثیت کا مالک گردانتے ہیں۔

اسٹیفن تریجو آسٹن میں ’ہونیورسٹی آف ٹیکساس‘ میں اقتصادیات کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سنہ 1980میں امریکہ میں آئرش نسل سے تعلق والے لوگوں کی تعداد تقریبا ً دو کروڑ تھی؛ پھر جب سنہ 1980 کی مردم شماری میں آبائو اجداد کے معاملے پر نظر دوڑائی گئی تو پتا یہ چلا کہ اس اعتبار سے چار کروڑ لوگوں نے آئرش آبائو اجداد سے اپنا رشتہ ظاہر کیا‘‘۔

بقول اُن کے، ’’مختلف نسب کے لوگوں نے اپنے آپ کو آئرش جتلایا، ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ سینٹ پیٹرز ڈے پر رنگ و بو، خوشی اور سجاوٹ مشہور ہوئی، یہاں تک کہ سبھی چاہتے تھے کہ اس سے ناطہ جوڑیں، اس لیےبہت سوں نے ایسا ہی کیا‘‘۔

سنہ 1994میں ’امریکن سوشیولوجیکل رویو‘ میں تحریر کردہ ایک تجزئے میں کہا گیا ہے کہ’’آرئرش نسل کے ساتھ قربت کے نتیجے میں ہی سنہ 1980 کی مردم شماری میں آئرش لوگوں کا شمار بہت زیادہ ظاہر ہوا‘‘۔

آج آئرش امریکی اوائلی ادوار میں وارد ہونے والے آئرش لوگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ آگے ہیں۔

اعداد کے مطابق، ایک عام امریکی گھر کی سالانہ آمدن کا شمار 53657 ڈالر ہے، جب کہ ایک آئرش امریکی کی سالانہ آمدن 62141 ڈالر سے زائد ہے۔ یہ بات امریکی مردم شماری کے ادارے نے بتائی ہے۔ آئرش نسل کے لوگوں کا 42 فی صد منیجمنٹ، کاروبار، سائنس اور فنونِ لطیفہ کے شعبوں سے وابستہ ہے، 24 فی صد سیلز یا دفتری روزگار کرتے ہیں، جب کہ 15 فی صد فوجی خدمات انجام دیتے ہیں۔

آج امریکہ کی 10 فی صد آبادی آئرش نسل ہونے کی دعوے دار ہے، لیکن امریکہ میں ایک کہاوت بہت مشہور ہے کہ ’جب سینٹ پیٹرز ڈے آتا ہے تو سبھی آئرش بن جاتے ہیں‘۔ جب 17 مارچ آئے گا تو سبھی کھل کر اِسی روش کا مظاہرہ کریں گے!

XS
SM
MD
LG