رسائی کے لنکس

بھارت: ڈاکٹر کا کشمیری مریضہ کا علاج کرنے سے انکار


فائل
فائل

’فورم فار سول رائٹس‘ کے سکریٹری جنرل نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”جب کوئی شخص طبی پیشے میں جاتا ہے تو وہ ہر مریض کا علاج کرنے کا حلف اٹھاتا ہے۔ اگر مذکورہ ڈاکٹر نے علاج کرنے سے انکار کیا ہے تو اس نے اپنے پیشے کے ساتھ جرم کیا ہے“

ملک کے بعض علاقوں میں نئی دہلی کے زیر انتظام کشمیر کے باشندوں کے ساتھ ناروا سلوک کے کئی واقعات حالیہ دنوں میں پیش آئے ہیں۔ ایک تازہ واقعہ میں پی جی آئی چنڈی گڑھ کے ڈاکٹروں نے مبینہ طور پر ایک مریضہ کا علاج کرنے سے اس وجہ سے انکار کر دیا کہ وہ کشمیری ہے، اور بقول اس کے، ”وہ لوگ وادی میں فوجیوں پر پتھراؤ کرتے ہیں“۔

سری نگر کی 55 سالہ نسرین ملک جو کہ ایک دماغی مرض میں مبتلا ہیں آپریشن کے سلسلے میں مشورہ کرنے کی غرض سے پی جی آئی چنڈی گڑھ گئی تھیں۔ ان کے اہل خانہ کے مطابق ڈاکٹر کے ناروا سلوک اور علاج پر آنے والے خرچ سے متعلق غلط بیانی کی وجہ سے وہ اسپتال سے نکل آنے پر مجبور ہوگئے۔ نسرین کے بیٹے جاوید ملک نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ جس ڈاکٹر کے پاس گئے تھے اس کے کمرے کے دروازے پر ڈاکٹر منوج تیواری کی تختی لگی ہوئی تھی۔ تاہم وہ یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ ناروا سلوک کا مظاہرہ اسی ڈاکٹر نے کیا۔

انھوں نے کہا کہ ”جب ہم کمرے میں داخل ہوئے تو ڈاکٹر نے بہت مہذب انداز میں گفتگو کی اور جانچ شروع کر دی۔ پھر انھوں نے کیس ہسٹری معلوم کی اور جب ہم نے کشمیر کے ایک اسپتال کے کاغذات ان کے سامنے رکھے اور انھیں یہ معلوم ہوا کہ ہم کشمیری ہیں تو ان کا رویہ بدل گیا۔ وہ ناراض ہوگئے اور انھوں نے یہ کہتے ہوئے کاغذات پھینک دیے کہ ”وہاں کشمیر میں ہمارے جوانوں کو پتھر مارتے ہو اور پھر یہاں علاج کے لیے آتے ہو“۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ”ڈاکٹر نے متعلقہ علاج کے لیے پندرہ لاکھ روپے کا مطالبہ کیا جبکہ اسی مرض میں مبتلا دوسرے مریضوں نے 80 ہزار روپے بتائے“۔

انسانی حقوق کی ایک تنظیم، ’فورم فار سول رائٹس‘ کے سکریٹری جنرل سید منصور آغا نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”جب کوئی شخص طبی پیشے میں جاتا ہے تو وہ ہر مریض کا علاج کرنے کا حلف اٹھاتا ہے۔ اگر مذکورہ ڈاکٹر نے علاج کرنے سے انکار کیا ہے تو اس نے اپنے پیشے کے ساتھ جرم کیا ہے“۔

انھوں نے مزید کہا کہ ”مریض کوئی بھی ہو، حتیٰ کہ میدان جنگ کا کوئی سپاہی زخمی ہونے کی وجہ سے اسپتال میں لایا جائے گا تو ڈاکٹر یہ نہیں پوچھے گا کہ وہ دشمن ملک کا ہے یا اپنے ملک کا ہے۔ اس کی پیشہ ورانہ ذمہ داری اور فرض ہے کہ وہ اس کا علاج کرے۔ کوئی مجرم اور ڈاکو بھی اگر ایسے کسی واقعہ میں زخمی ہو کر آتا ہے تو ڈاکٹر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا علاج کرے۔ جب مجرم اور ڈاکو کے علاج کرنے کی ڈاکٹر کی ذمہ داری ہے تو کسی ملک کے کسی خطہ میں اگر شورش ہو رہی ہو تو وہاں کے کسی شخص کا علاج کرنے سے انکار کرنا ایک طبی جرم ہے“۔

پی جی آئی نے اس واقعہ کا سخت نوٹس لیا ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق اسپتال کے ڈائرکٹر پروفیسر جگت رام نے واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا اور کہا کہ ”ہم نے متعلقہ شعبے کے سربراہ سے رپورٹ طلب کی ہے۔ اگر ڈاکٹر قصوروار پایا گیا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی“۔

اس سے قبل انھوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر سے روزانہ سیکڑوں مریض علاج کرانے پی جی آئی آتے ہیں۔ ہم ان کو بہترین علاج فراہم کرتے ہیں۔ یہاں کشمیریوں کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا۔

یاد رہے کہ چند روز قبل راجستھان کی ایک پرائیوٹ یونیورسٹی میں مقامی باشندوں نے کشمیری طلبہ کی یہ کہہ کر پٹائی کی کہ وہ پتھر باز ہیں۔ جبکہ اپریل میں میواڑ یونیورسٹی راجستھان کے چھ کشمیری طلبہ کو بھی دہشت گرد کہہ کر زد و کوب کیا گیا تھا۔ اترپردیش کے کانپور میں جگہ جگہ بینر لگا کر کشمیریوں کو وہاں سے نکل جانے کو کہا گیا۔ بینر آویزاں کرنے والی ایک ہندوتووادی تنظیم کے سربراہ کو پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔

ان واقعات کی وجہ سے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کو تمام ریاستوں کو یہ ہدایت دینی پڑی ہے کہ وہ اپنے یہاں کشمیریوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG