رسائی کے لنکس

ڈرون حملوں میں ’64 سے 116 شہری ہلاکتیں ہوئیں‘: رپورٹ


’’ہم اب اس مرحلے میں ہیں جب ہم ان کارروائیوں کے بارے میں فیصلہ کرتے وقت نہ صرف امریکی عوام کے سامنے زیادہ شفاف بنیں بلکہ ایسی کارروائیوں کے نتائج کے بارے میں دنیا کو بھی آگاہ کیا جائے، اُس صورت میں بھی جب یہ نتائج ہماری خواہش کے عین مطابق نہ بھی ہوں‘‘: ترجمان وائٹ ہاؤس

وہ علاقے جہاں باضابطہ لڑائی نہیں ہو رہی، وہاں کی گئی ڈرون کارروائیوں کے دوران ہونے والی شہری ہلاکتوں کے بارے میں کافی انتظار کے بعد وائٹ ہاؤس نے ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ 2009 ءسے 2015ء تک کے عرصے کے دوران کُل 64 سے 116 شہری ہلاک ہوئے۔

وائٹ ہاؤس ترجمان، جوش ارنیسٹ نے کہا ہے کہ انتظامیہ کی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی تبھی زیادہ قابل اعتبار بنتی ہے جب یہ ممکنہ حد تک شفاف ہو اور صدر ایک نئے انتظامی حکم نامے کا اعلان کرنے والے ہیں جس کا مقصد شہری ہلاکتوں سے بچنے کے لیے اضافی اطلاعات فراہم کرنے کا نظام وضع کرنا ہے اور جو ہلاکتیں ہوتی ہیں اُن کا اندراج اور انکشاف لازم ہے۔

بقول اُن کے ’’ہم اب اس مرحلے میں ہیں جب ہم ان کارروائیوں کے بارے میں فیصلہ کرتے وقت نہ صرف امریکی عوام کے سامنے زیادہ شفاف بنیں بلکہ ایسی کارروائیوں کے نتائج کے بارے میں دنیا کو بھی آگاہ کیا جائے، اُس صورت میں بھی جب یہ نتائج ہماری خواہش کے عین مطابق نہ بھی ہوں‘‘۔

رپورٹ میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کو دکھایا گیا ہے جو انتظامیہ کے بقول، اُن علاقوں میں واقع ہوئیں جہاں’’ باضابطہ مخاصمانہ کارروائی نہیں ہو رہی‘‘۔ یہ کارروائیاں افغانستان، عراق یا شام میں نہیں بلکہ پاکستان، یمن، لیبیا اور صومالیہ میں کی گئیں۔

سرکاری اعداد و شمار اُن سے کم ہے جو باہر کے گروہوں کے اندازوں پر مبنی ہیں، جن میں شمار تقریباً 200 سے 1000سے بھی زیادہ بتایا جاتا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے رپورٹ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اس بات کی وضاحت کرنے میں ناکام رہا ہے کہ وہ کسے ہدف بناتا ہے اور کیوں ہدف بناتا ہے، جب کہ ہلاکتوں کی تعداد کو اکٹھا کرنا ناممکن ہے۔

لورا پِتر، ’ہیومن رائٹس واچ‘ میں امریکی قومی سلامتی پر سینئر مشیر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’جب تک مخصوص واقعات کے بارے میں تفصیل فراہم کی جائیں، یہ طے کرنا ممکن نہیں کی ہلاک ہونے والےافراد سولین تھے، اور یہ کہ امریکہ واقعی اپنی پالیسی اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری کر رہا ہے‘‘۔

افغانستان میں امریکی قیادت والی کارروائی کے دوران، اکتوبر 2001ء میں امریکہ نے قندھار میں پہلا ڈرون حملہ کیا، جس میں سابق طالبان رہمنا ملہ عمر بال بال بچے تھے۔ تب سے اس ہتھیار کو دنیا بھر کے تنازعے کے خطوں کے علاوہ دیگر علاقوں میں چوٹی کے دہشت گردوں کو ہدف بنانے کے لیے، وسیع طور پر استعمال کیا گیا۔

’دی لونگ وار جرنل‘ کے مطابق، صرف پاکستان ہی میں، سنہ 2008 سے لے کر اب تک امریکہ نے 392 فضائی کارروائیاں کی ہیں۔ یمن میں سنہ 2002 سے اب تک امریکہ نے القاعدہ کے کُل 154 کمانڈروں کو ہدف بنایا ہے۔ یہ اعداد اخباری رپورٹوں کی بنیاد پر اکٹھے کیے گئے ہیں۔

XS
SM
MD
LG