رسائی کے لنکس

'سول سوسائٹی مضبوط ہو گی تو حکومت مضبوط ہو گی'


انسانی حقوق کے کارکنان جبری گمشدگی کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں (فائل فوٹو)
انسانی حقوق کے کارکنان جبری گمشدگی کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں (فائل فوٹو)

پاکستان میں مختلف شعبوں میں غیرسرکاری تنظیموں کی ایک بڑی تعداد کام کر رہی ہے لیکن حالیہ برسوں میں انھیں حکومت کی طرف سے خاصی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

حکومت کا یہ موقف رہا ہے کہ بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں تو دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کر رہی ہیں لیکن ایسی تنظیمیں بھی موجود ہیں جو قواعد اور حکام کے بقول ملکی مفاد کے خلاف سرگرمیوں میں مبینہ طور پر ملوث ہیں۔

حال ہی میں پنجاب میں حکام کی طرف سے انسانی و سماجی حقوق کے لیے کام کرنے والی دو غیر سرکاری تنظیموں کو ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں نوٹسز جاری کیے گئے تھے جس کے خلاف جب ان این جی اوز نے عدالت سے رجوع کیا تو یہ نوٹسز حکام نے واپس لے لیے۔

ان میں سے ایک این جی او "ساؤتھ ایشیا پارٹنرشپ پاکستان" بھی تھی۔ اس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد تحسین نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ایسے اقدام اس سوچ کی عکاسی کرتے ہیں جو ان کے بقول کسی آزادانہ آواز خاص طور پر تعلیم، صحت، روزگار اور بنیادی انسانی حقوق کی بات کرنے والی آواز کو نہیں سننا چاہتی۔

جون 2015ء میں حکام نے سیوو دی چلڈرن کے دفتر کو سربہمر کر دیا تھا۔
جون 2015ء میں حکام نے سیوو دی چلڈرن کے دفتر کو سربہمر کر دیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ آئین نے شہریوں کو جو حقوق دیے ہیں وہ ان کی فراہمی کو یقینی بنائے اور جب یہ حقوق شہریوں کو نہیں ملتے تو اس بارے میں آواز تو بلند کی جائے گی جو کہ حکومت کی بہتری کے لیے ہی اٹھائی جاتی ہے۔

"یہ ریاست کا کام ہے کہ وہ شہریوں کو حقوق دے، صحت، تعلیم، صاف پانی ہے، عزت نفس ہے، سرپر چھت ہے سکیورٹی ہے۔۔۔اب پانچ سو این جی اوز بھی اکٹھی ہو جائیں تو ہم اس ملک میں غربت نہیں دور کر سکتے لوگوں کو سکیورٹی نہیں دے سکتے، ہم روزگار نہیں دے سکتے۔۔۔حالانکہ ہم نہیں بولیں گے تو ان (حکومت) کو نظر کیا آئے گا یہ گورننس کیسے صحیح کریں گے ان کو سمجھ نہیں آتی کہ سول سوسائٹی مضبوط ہوگی تو حکومت مضبوط ہوگی۔"

انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان نے بھی گزشتہ ہفتے ہونے والے اپنے سالانہ اجلاس میں این جی اوز کے خلاف ہونے والی سرکاری کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

کمیشن کی سابق چیئرپرسن زہرہ یوسف نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ایسے رویے کو تشویشناک قرار دیا۔

"دوبارہ رجسٹریشن میں کوئی حرج نہیں لیکن بے بنیاد الزامات سے ان کے کام کو روکا جا رہا ہے اگر کوئی این جی او قانون کی خلاف ورزی کر رہی ہے تو پھر (کارروائی) ٹھیک ہے۔۔۔یہ تو حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے وہ تو پوری وہ کر نہیں رہی اور جو کر رہے ہیں ان کو روکنے کی کی کوشش کر رہی ہے۔۔۔این جو اوز کو بھی چاہیے کہ وہ قانون کے دائرے میں رہ کر کام کریں۔"

2015ء میں حکومت نے وسیع پیمانے پر این جی اوز کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان کے ازسر نو اندراج کے لیے حکمت عملی وضع کرنے کا اعلان کیا تھا اور وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا تھا کہ کسی بھی غیر سرکاری تنظیم کو اس دائرہ کار سے ہٹ کر کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی جو اندراج کے وقت وضع کیے جائیں گے۔

گزشتہ ہفتے ہی اس نئی پالیسی کے تحت وفاقی وزارت داخلہ نے 70 بین الاقوامی غیرسرکاری تنظیموں کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت دی تھی۔

XS
SM
MD
LG