رسائی کے لنکس

اوباما اور مٹ رومنی کے درمیان مقابلے کے امکانات روشن


سماجی طور پر قدامت پسند امریکیوں نے سینٹورم کو دس ریاستوں میں فتح دلائی۔ اس طرح ریپبلیکنز کے درمیان تند و تیز مقابلہ اور طویل ہو گیا ۔ مہینوں تک سینٹورم نے ریاست میساچوسٹس کے سابق گورنر رومنی پر تنقید کی اور انہیں ایسا اعتدال پسند سیاستدان قرار دیا جن کا کوئی اصول نہیں ہے۔

امریکہ کی صدارتی سیاست میں ریپبلیکن امیدواروں کے درمیان نامزدگی کا مقابلہ تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ سینیٹر رِک سینٹورم نے منگل کے روز اپنی انتخابی مہم معطل کر دی اور یوں نومبر میں سابق گورنر مِٹ رومنی اور صدر براک اوباما کے درمیان مقابلے کے امکانات روشن ہو گئے۔

جب رِک سینٹورم نے اچانک یہ اعلان کیا کہ ہم آج سے اپنی انتخابی مہم پر کام بند کر دیں گے۔ تو مِٹ رومنی نے اپنی خوشی کا اظہار ان الفاظ سے کیا ’’مجھے آج بہت اچھا محسوس ہو رہا ہے ۔ آج کا دن بہت مبارک ہے۔‘‘

سینٹورم کی انتخابی مہم کا خاتمہ ان کی اپنی ریاست پینسلوینیا میں پرائمری انتخاب کی ووٹنگ سے دو ہفتے قبل ہوا۔ سیاسی تجزیہ کار تھامس مان کہتے ہیں کہ امکان یہی تھا کہ وہ سینٹورم اس مقابلے میں ہار جاتے۔

’’جب انہیں یہ احساس ہوا کہ وہ خود اپنی ہی ریاست میں دوسری بار شکست کھانے والے ہیں۔ پہلی بار وہ سینیٹ کے دوبارہ انتخاب میں ہار گئے تھے۔ تو انھوں نے طے کیا کہ ریپبلیکن پارٹی میں اور زیادہ لوگوں کی دشمنی مول لینے سے بہتر یہی ہے کہ وہ مقابلے سے دستبردار ہو جائیں۔‘‘

سماجی طور پر قدامت پسند امریکیوں نے سینٹورم کو دس ریاستوں میں فتح دلائی۔ اس طرح ریپبلیکنز کے درمیان تند و تیز مقابلہ اور طویل ہو گیا۔ مہینوں تک سینٹورم نے ریاست میساچوسٹس کے سابق گورنر رومنی پر تنقید کی اور انہیں ایسا اعتدال پسند سیاستدان قرار دیا جن کا کوئی اصول نہیں ہے۔

’’براک اوباما کے مقابلے کے لیے ان سے زیادہ نا موزوں ریپبلیکن اور کوئی نہیں ہو سکتا۔‘‘

اور مہینوں تک رومنی اصرار کرتے رہے کہ وہ صحیح معنوں میں قدامت پسند ہیں اور انھوں نے دائیں بازو کے ایسے موقف اختیار کیے جو عام انتخاب میں ان کے خلاف جا سکتے ہیں۔ اب جب کہ ان کی نامزدگی یقینی ہو گئی ہے رومنی اپنی توجہ اور اپنے وسائل صدر براک اوباما پر مرکوز کر سکتے ہیں جو ڈیموکریٹک ووٹرز میں جوش و خروش پیدا کرنے اور غیر جانبدار ووٹرز میں اپنی مقبولیت بڑھانے میں مصروف رہے ہیں۔

’’آپ چاہے کوئی بھی ہوں آپ کیسے بھی نظر آتے ہوں، آ پ کا نام کچھ ہی کیوں نہ ہو، کالے ، گورے، ہسپینک ، ایشین، قدیم امریکی، ہم جنس پرست، عام جنسی رجحانات کے حامل، معذور ہو ں یا نہ ہوں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ آپ کو امریکی خواب دیکھنے کا حق حاصل ہے۔ یہ وہ تصور ہے جو ہم سب میں مشترک ہے۔‘‘

اب لوگوں نے رومنی سے یہ سوال پوچھنا شروع کر دیا ہے کہ وہ اپنے ساتھ نائب صدر کا انتخاب لڑنے کے لیےکسے چنیں گے۔

’’میں آج یہ اعلان کر رہا ہوں کہ میں نے نائب صدارت کے لیے ابھی کوئی فہرست تیار نہیں کی ہے۔‘‘

اپریل میں رومنی کے ریپبلیکن امیدوار کی حیثیت سے سامنے آنے سے انہیں ریپبلیکن پارٹی میں اختلافات ختم کرنے اور ایک ایسا پیغام تیار کرنے کے لیے وقت مل گیا ہے جو عام امریکیوں کے لیے پُر کشش ہوگا۔ رائے عامہ کے جائزے لینے والے ماہر پیٹر براؤن کہتے ہیں کہ نامزدگی کی تند و تیز جنگ کے اثرات ختم کرنے کے لیے رومنی کو سخت محنت کرنا ہو گی۔

’’کئی مہینوں سے صدارت کے ریپبلیکن امیدوار ایک دوسرے پر حملے کرتے رہے ہیں اور اتنی زیادہ منفی باتیں کہی گئی ہیں کہ ان سے خاصا نقصان ہوا ہے۔‘‘

سینٹورم کے اعلان کے بعد رومنی کی طرف سے کوئی منفی بیان نہیں دیا گیا۔

’’ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ہم وائٹ ہاؤس کو اور سینیٹ کو واپس لے لیں، اور ایوانِ نمائندگان میں اپنی اکثریت برقرار رکھیں، مِل جل کر کام کریں گے۔ ہم اس کام کو مکمل کریں گے۔‘‘

XS
SM
MD
LG