رسائی کے لنکس

روس: جمہوری تحریک کے پوٹن پر اثرات


روس: جمہوری تحریک کے پوٹن پر اثرات
روس: جمہوری تحریک کے پوٹن پر اثرات

گذشتہ تین مہینے کا عرصہ ولادیمر پوٹن کو پوری سیاسی زندگی کی طرح محسوس ہوتا ہوگا۔ روس میں جمہوریت کی تحریک کا اچانک عروج اس مردِ آہن کے بارہ سالہ دورِ حکومت کا سب سے بڑا چیلنج ثابت ہو رہا ہے۔

ماسکو میں یونائیٹڈ رشیا پارٹی کا اجلاس ٹیلیویژن کے گیم شو جیسا محسوس ہوتا تھا ۔ اس اجلاس کی تمام تفصیلات پہلے سے طے تھیں۔ روس کے صدر دمتری میدویدف نے اعلان کیا کہ وہ 4 مارچ کو صدارتی انتخاب کی رسم پوری ہونے کے بعد، وزیرِ اعظم ولادیمر پوٹن کے ساتھ اپنے عہدے کا تبادلہ کر لیں گے ۔

تقریباً ایک لاکھ افراد پوٹن کے بغیر روس کا نعرہ لگانے ماسکو پر امڈ آئے ۔ روس میں یہ اچانک تبدیلی کیسے آئی ؟ ہجوم میں موجود کچھ لوگوں نے اس سوال کا جواب دیا۔

ایلکسی ولادیمروف ڈیڑھ سو کلومیٹر دور توار سے اپنی گاڑی میں یہاں پہنچے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ روس میں کبھی منصفانہ انتخابات نہیں ہوئے، لیکن اب کمیونزم کے خاتمے کے 20 سال بعد، حقیقی جمہوریت کا وقت آ گیا ہے ۔ اسوٹلانا سلیپوا احتجاج میں شرکت کے لیے آئیں تو ان کے ہاتھ میں سفید رنگ کے غبارے تھے،انھوں نے کہا کہ سفید رنگ اس بات کی علامت ہے کہ جمہوریت کی تحریک پُر امن اصلاحات کی خواہاں ہے ۔

24 سالہ کمپیوٹر پروگرامر اسٹانسلاف گراسیموو روس کے نئی، سیاسی طور پر سرگرم متوسط طبقے کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتے ہیںوہ کہہ رہے ہیں کہ روس میں لوگوں کی ایک اہم تعداد نے حکومت سے خوف کھانا چھوڑ دیا ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ حکومت کو لوگوں کی خدمت کرنی چاہیئے نہ لوگ حکومت کی خدمت کریں۔

وزیرِ اعظم پوٹن نے حال ہی میں سرکاری ٹیلیویژن پر الزام لگایا کہ بعض مظاہرین کو احتجاج کرنے کے لیے پیسے مِل رہے ہیں۔ گراسمیوو اور دوسرے لوگ اس الزام کو اپنی توہین سمجھتے ہیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ روسی مظاہرین کو پیسے نہیں مِل رہے ہیں، یقیناً انہیں امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن یا صدر اوباما سے کچھ نہیں مل رہا ہے ۔ لوگ رضاکارانہ طور پر احتجاج کر رہے ہیں، وہ روس کی تاریخ کے ایک اہم لمحے میں حصہ لے رہے ہیں۔

بیسویں صدی میں روس میں دو انقلاب آئے ۔ پہلے انقلاب میں کمیونزم کی جڑیں مضبوط ہوئیں اور دوسرے انقلاب میں اسے جڑ سے نکال کر پھینک دیا گیا۔ فی الحال تو حزبِِ اختلاف کے لوگ صدارتی انتخاب کو اپریل کے آخر تک ملتوی کرنا چاہتی ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ نئے چہرے اور نئی پارٹیاں آزادانہ اور منصفانہ انتخاب میں حصہ لیں۔ حزبِ اختلاف کے ابھرتے ہوئے ستارے ایلکس ناوالنے نے منگل کے روز کہا کہ وہ انتخاب میں امیدوار ہوں گے ۔ احتجاجی مظاہرے میں ناوالنے نے دھمکی دی کہ اگر آنے والے ہفتوں کے دوران، جمہوریت کے حامی مظاہرین کو دبایا گیا تو وہ ایک ہجوم کو ساتھ لے کر کریملن پر دھاوا بول دیں گے ۔

گراسیموو اور ان کی خاتون دوست اصلاحات کرنا چاہتی ہیں، وہ ایک اور انقلاب لانا نہیں چاہتیں ۔ روس کی بیسویں صدی کی پُر آشوب تاریخ ہنگاموں سے پُر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ زار کو پھانسی دی جائے اور وزیرِ اعظم کے دفتر پر گولے برسائے جائیں۔اگلے دس ہفتوں کے دوران، اہم ترین بات یہ ہو گی کہ مفت انٹرنیٹ تک مسلسل رسائی حاصل رہے ۔

احتجاج کرنے والی ایک خاتون کہتی ہیں کہ وہ اور ان کے دوست، ساری مہم انٹرنیٹ کے ذریعے چلانا چاہتےہیں۔ ’’روس میں ٹیلیویژن کے تمام سرکاری چینل جھوٹ بولتے ہیں، اور سچائی صرف انٹرنیٹ سے مل سکتی ہے ۔‘‘

تحریکِ جمہوریت کا اگلا ہدف یہ ہے کہ ماسکو میں ایک احتجاجی جلسہ کیا جائے جس میں دس لاکھ افراد موجود ہوں ۔ خیال یہ ہے کہ اس سے 4 مارچ کا صدارتی انتخا ب متاثر ہو سکتا ہے جسے تجزیہ کار صرف تین مہینے پہلے تک، مسٹر پوٹن کی تاجپوشی کہہ رہے تھے ۔

کریملن کے لیڈر کہتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ انتخابات بالکل شفاف ہوں۔ ان کا اصرار ہے کہ انہیں تیسری بار صدر کے عہدے کا انتخاب جیتنے کے لیے ووٹوں میں دھاندلی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن روس میں جس تیزی سے موڈ بدل رہا ہے، اس کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ مسٹر پوٹن اپنی سیاسی زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG