رسائی کے لنکس

روس شام میں 48 گھنٹوں کی جنگ بندی پر آمادہ


ریابکوف نے روس کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ سات روزہ جنگ بندی عسکریت پسند گروپوں کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع فراہم کرے گی۔

روس کے ایک اعلیٰ سفارتکار نے کہا ہے کہ ان کا ملک شام کے شہر حلب کے گرد و نواح میں 48 گھنٹوں کی جنگ بندی کے لیے تیار ہے۔

جمعرات کو نائب وزیرخارجہ سرگئی ریابکوف نے امریکہ کے اس مطالبے کو مسترد کیا جس میں کہا گیا تھا کہ سات روز تک جنگ بندی کی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی طرف سے شام کے تنازع سے متعلق روس کے ساتھ تعاون ختم کرنے کی دھمکی "جذباتی بات" ہوگی۔

روسی عہدیدار کے اس بیان سے قبل امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے متنبہ کیا تھا کہ اگر شام اور روس حلب میں حملے بند نہیں کریں گے تو واشنگٹن، ماسکو کے ساتھ تعاون ختم کر دے گا۔

ریابکوف نے روس کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ سات روزہ جنگ بندی عسکریت پسند گروپوں کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع فراہم کرے گی۔

جان کیری کے ترجمان کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ تھا کہ انھوں نے نے اپنے روسی منصب سرگئی لاوروف سے فون پر گفتگو میں یہ واضح کر دیا تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی شام میں موجودہ صورتحال بمشول شہری علاقوں میں بمباری کا ذمہ دار روس کو تصور کرتے ہیں۔

شام کے دوسرے بڑے شہر حلب کا مشرقی حصہ باغیوں کے زیر تسلط ہے جب کہ مغربی حصے میں صدر بشارالاسد کی وفادار فورسز موجود ہیں۔

حالیہ ہفتوں میں یہاں ہونے والی لڑائی کے باعث صورتحال انتہائی خراب ہو چکی ہے جب کہ شہر میں موجود عام شہریوں کے ہنگامی بنیادوں پر امداد کی اشد ضرورت ہے۔

رواں ماہ کے اوائل میں روس اور امریکہ کے یہاں جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا لیکن اس کے بعد ہونے والی فضائی کارروائیوں کے نتیجے میں یہ معاہدہ برقرار نہ رہ سکا۔

امریکہ شام میں معتدل حزب مخالف کی حمایت کرنے کے علاوہ شدت پسند گروپ داعش کے خلاف برسرپیکار فورسز کو بھی معاونت فراہم کر رہا ہے جب کہ روس صدر بشارالاسد کا حامی ہے جو داعش کے علاوہ باغیوں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG