رسائی کے لنکس

جاسوسی کے لیے جدید اور آزمودہ طریقوں کا استعمال


ایسا لگتا ہے کہ روسی جاسوسوں کے جس مبینہ نیٹ ورک کو امریکی کاؤنٹر انٹیلی جنس ایجنٹوں نے حال ہی میں پکڑ ا ہے، وہ جاسوسی کے پرانے آزمودہ طریقوں کے ساتھ ساتھ جدید ترین ٹیکنالوجی بھی استعمال کر رہا تھا۔ اس کیس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس گروہ کے مقاصد کیا تھے اور یہ کس حد تک اپنے کام میں مشاق تھا۔

جاسوسی کے کام میں نازک ترین مرحلہ حاصل کردہ معلومات کو آگے پہنچانا ہوتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے کہ جب معلومات یا پیسے کا تبادلہ ہو رہا ہوتا ہے اورجاسوسوں کو پکڑنے والا عملہ ان کی تاک میں ہوتا ہے ۔ کاؤنٹر انٹیلی جینس ایجنٹ مسلسل جاسوسوں کی نگرانی کر تے رہتے ہیں کہ جیسے ہی معلومات کا تبادلہ ہو، وہ جاسوسوں کو پکڑ لیں۔

سی آئی اے کے سابق افسر اورآج کل انٹرنیشنل اسپائی میوزیم کے ڈائریکٹر پیٹرارنسٹ کہتے ہیں کہ جن 11 افراد پر امریکہ نے روس کے لیے جاسوسی کا الزام لگایا ہے، انھوں نے جاسوسی کے نئے اور پرانے طریقوں کو ملا جلا کر استعمال کیا’’اُنھوں نے نہ صرف جاسوسی کے روایتی طریقے استعمال کیے، جیسے برش پاسس اور ڈیڈ ڈراپز بلکہ اُنھوں نے ایک دوسرے سے رابطے کے لیے پرائیویٹ ’’ایل ایے این‘‘ لیپ ٹاپ کمپیوٹرز بھی استعمال کیے۔ وہ کسی کافی شاپ میں بیٹھے ہوئے یا کسی اسٹاپ سائن پر کھڑی ہوئی گاڑی میں بیٹھے ہوئے جاسوس کے ساتھ فوری طور پر معلومات کا تبادلہ کر سکتے تھے یا کسی ویب سائٹ پر کسی تصویر کے ذریعے کوڈ کی زبان میں کوئی پیغام دے سکتے تھے ۔ یہ سب جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال ہے‘‘۔

جاسوسی کی اصطلاح میں برش پاس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی فرد چلتے ہوئے کوئی خفیہ معلومات چپکے سے سامنے سے آنے والے دوسرے آدمی کے حوالے کردے اور ڈیڈ ڈراپ کا مطلب ہے کسی خفیہ جگہ کوئی چیز چھوڑ دینا جہاں سے بعد میں کوئی اسے نکال لے۔

لیکن ایف بی آئی نے اس کیس کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اس سے کچھ سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ سوویت آپریشنز کے سی آئی اے کے سابق چیف برٹن جیربر نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ جاسوسوں کے اس ٹولے کے ارکان بظاہر ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ اس سے اس بنیادی اصول کی خلاف ورزی ہوئی ہے کہ مختلف ایجنٹوں کو ایک دوسرے کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہونا چاہیئے تا کہ اگر کوئی ایک ایجنٹ پکڑا جائے تو وہ دوسروں کے بارے میں کچھ نہ بتا سکے۔

’’ال لیگل‘‘ غیر قانونی کی اصطلاح ایسے ایجنٹوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جنھوں نے اپنا بھیس بدل رکھا ہو۔ مثلاً ایسے ایجنٹس جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ کسی اور ملک کے رہنے والے ہیں اور اب ان کا اپنے آبائی ملک سے کوئی تعلق باقی نہیں ہے ۔ اکثر ’’ال لیگلز‘‘ کے ذمے یہ کام ہوتا ہے کہ وہ کسی سرکاری ایجنسی میں یا کسی حساس عہدے میں ملازم ہو جائیں۔ لیکن اس مبینہروسی نیٹ ورک میں سے کسی کے پاس کوئی ایسی ملازمت نہیں تھی جس کے ذریعے حساس معلومات جمع کی جا سکیں۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ انہوں نے کس قسم کی ٹھوس معلومات جمع کیں اور ماسکو کو پہنچائیں۔

سی آئی اے کے سابق افسر پیٹرارنسٹ کہتے ہیں کہ یہ لوگ اپنی شناخت کو خفیہ نہیں رکھ سکتے تھے’’ایسا لگتا ہے کہ ان کو اس لیے بھیجا گیا تھا کہ وہ معاشرے کا جزو بن جائیں، بالکل عام لوگوں جیسے نظر آئیں لیکن پالیسی سازوں کے بارے میں معلومات جمع کرنا شروع کریں۔ لیکن ان میں سے کسی کی بھی رسائی ان لوگوں تک نہیں ہے۔ وہ عام لوگوں سے مِل جل رہے ہیں لیکن سی آئی اے، ایف بی آئی یا وہائٹ ہاؤس تک پہنچنا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ ایک اور بات جو وہ کر سکتے تھے وہ یہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں کا پتہ چلائیں جنہیں روسی انٹیلی جنس کا کام کرنے کے لیے بھرتی کیا جا سکتا تھا‘‘۔

ماسکو میں سی آئے اے کے سابق اسٹیشن چیف برٹن جیربر کہتے ہیں کہ جس طرح امریکہ میں 2001ء کے حملوں کے بعد کاؤنٹر انٹیلی جینس کی سرگرمیوں میں اب توجہ دہشت گردی کے انسداد پر ہے، اسی طرح سوویت روس کے خاتمے کے بعد کے دور میں، روس میں بھی دہشت گردی کے خاتمے پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔ لیکن ماسکو کی نظریں اب بھی امریکہ پر لگی رہتی ہیں’’میرا خیال یہ ہے کہ روسیوں نے ہمیشہ امریکہ کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھا ہے۔ سوویت یونین کے زوال سے پہلے کے دور میں دہشت گردی ان کے لیئے کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن جب انہیں یہ احساس ہوا کہ دہشت گردی کتنا بڑا مسئلہ ہے تو انہیں بڑی تیزی سے اپنی سوچ بدلنی پڑی اور اب ان کی بہت زیادہ توجہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں پر ہے‘‘۔

پیٹرارنسٹ کہتے ہیں کہ یہ صحیح ہے کہ امریکہ میں ایف بی آئی کی بیشتر توجہ دہشت گردی کے انسداد پر ہے لیکن اس نے امریکہ کے خلاف جاسوسی کا توڑ کرنے کی ذمہ داریاں نظر انداز نہیں کی ہیں ’’

انھوں نے تو کمال ہی کر دیا۔ انھوں نے ان لوگوں کی نگرانی شروع کی، ان کے کمپیوٹرز تک رسائی حاصل کر لی، ان کے گھروں تک میں داخل ہوگئے، انھوں نے دستی معلومات ایک دوسرے کے حوالے کرتے ہوئے ، اور اپنے پرائیویٹ لین وائر لیس لیپ ٹاپ کمپیوٹرز استعمال کرتے ہوئے ، پکڑ لیا۔ ایف بی آئی نے اس پورے نیٹ ورک کو پوری طرح کورکر رکھا تھا۔ اس کیس میں تو ایف بی آئی نے کمال ہی کر دیا۔ آج کل ان پر دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں کرنے کا دباؤ ہے لیکن انھوں نے کاؤنٹر انٹیلی جینس کی عام کاروائیوں کو نظر انداز نہیں کیا ہے‘‘۔

لیکن ابھی بہت سے سوالات کے جواب باقی ہیں۔ شاید سب سے زیادہ پُر اسرار سوال یہ ہے کہ آخر ایف بی آئی نے اس نیٹ ورک کا پتہ کیسے چلایا۔

XS
SM
MD
LG