رسائی کے لنکس

سامعہ شاہد قتل تحقیقات، سید مختار کو پولیس تحفظ فراہم


سید مختار سامعہ قتل کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں پاکستان میں ہیں انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں انھیں اور ان کےحامیوں کو قتل کی دھمکیاں ملی ہیں جس کے بعد وہ خوفزدہ ہو گئے ہیں

پاکستان میں مبینہ طور پر غیرت کے نام پر قتل کا شکار بننے والی برطانوی خاتون سامعہ شاہد کے شوہر سید مختار کاظم کو پاکستان میں دھمکی آمیز پیغامات ملنے کے بعد پولیس کا تحفظ فراہم کر دیا گیا ہے۔

بریڈ فورڈ میں پیدا ہونے والی 28 سالہ سامعہ شاہد صوبہٴ پنجاب کے ضلع جہلم کے پنڈوری گاؤں میں 20 جولائی کو انتقال کرگئی تھیں۔

سید مختار کاظم نے الزام لگایا ہے کہ سامعہ کو اس کے گھر والوں نے دوسری شادی اور پہلے شوہر سے طلاق کا بدلہ لینے کے لیے غیرت کے نام پر قتل کر دیا ہے۔

ان کا یہ بھی الزام ہے کہ سامعہ کو والد کی بیماری کے بہانے سے دھوکہ دے کر دبئی سے پاکستان بلایا گیا تھا۔

سید مختار سامعہ قتل کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں پاکستان گئے ہوئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں انھیں اور ان کےحامیوں کو قتل کی دھمکیاں ملی ہیں جس کے بعد وہ خوفزدہ ہو گئے ہیں۔

ای ٹی وی کے مطابق، بریڈ فورڈ کی پاکستانی نژاد برطانوی رکن پارلیمان ناز شاہ نے تصدیق کی ہے کہ سید مختار کو پاکستان میں 24 گھنٹے پولیس کا تحفظ فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی ہے۔

ناز شاہ نے بتایا کہ میری سید مختار سے بات ہوئی تھی۔ انھیں اپنی حفاظت کے بارے میں خدشات تھے۔ لیکن، کل سےانھیں پولیس کا تحفظ حاصل ہوگیا ہے۔

پاکستان میں گذشتہ ہفتے سامعہ شاہد قتل کیس کی تحقیقات کا آغاز ہوا ہے اور تفتیش کاروں کی ایک نئی ٹیم کو کیس کا انچارچ بنایا گیا ہے، جبکہ پولیس نے ابتدائی تحقیقات میں قدرتی وجوہات کو سامعہ کی موت کا سبب بتایا تھا۔

رکن پارلیمان ناز شاہ نے برطانوی ہائی کمیشن اور پاکستانی حکام کی آج کی ملاقات کی تفصیلات کے حوالے سے بتایا کہ برطانوی ہائی کمیشن کے عملے کی طرف سے اعلیٰ سطحی پاکستانی حکام سے پوچھےجانے والے سوالات کی فہرست انھوں نے خود تیار کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ قونصل کانے کے دو اہل کاروں اور پاکستانی سینیئر پولیس افسران آج جہلم میں ملاقات کریں گے جس کا مقصد تحقیقات پر بحث کرنا ہے۔

ناز شاہ نے کہا ہے کہ میں نے اس کیس سے متعلق سوالات کی ایک سیریز لکھی ہے، جو میں تحقیقات کے بارے میں پوچھنا چاہوں گی، جس میں کون، کیا، کہاں اور کب جیسے سوالات پر مشتعمل واقعات کی تاریخ کے حساب سے ٹائم لائن شامل ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ میں نے پوسٹ مارٹم کے بعد لی جانے والی تصاویر کے بارے میں پوچھا ہے کہ کیسے اصل پیتھالوجسٹ نے مقتولہ کے گلے پر نشان کا اندازہ لگایا اور جسم کے نمونوں کی رپورٹ کی واپسی کی کب تک امید کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کس نے موت کی ابتدائی سبب کی رپورٹ تیار کی تھی اور جائے وقوعہ پر موجود افراد کی فہرست کے بارے میں پوچھا ہے اور وہاں موجود لوگوں نے کیا بتایا تھا۔

پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق، سامعہ کے لاش پر ظاہری چوٹوں کے نشانات نہیں ملےتھے۔ لیکن، بعدازاں بتایا گیا تھا کہ اس کی گردن پر واضح 19 سینٹی میٹر لمبا خرونچ کا نشان تھا۔

واضح رہے کہ سامعہ شاہد کے شوہر مختار کاظم نے اپنی بیوی کے مبینہ قتل کے مقدمے میں پانچ افراد کو نامزد کیا تھا جن میں سامعہ کے والد، والدہ، بہن، کزن مبین اور سابق شوہر شکیل ہیں۔

جبکہ دو نامزد ملزمان سامعہ کی والدہ امتیاز بی بی اور بہن مدیحہ شاہد کو پولیس نے بے گناہ قرار دیا ہے جو قتل کے وقت پاکستان میں موجود نہیں تھیں۔

سامعہ کے والد چودہری شاہد اور کزن مبین اور چودہری شکیل کا بیان ریکارڈ کیا گیا ہے اور وہ ضمانت پر ہیں۔

ٹیلی گراف کے مطابق سامعہ کے گھر والوں نے سختی سے اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ انھوں نے سامعہ کو قتل کیا ہے، بلکہ اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ سامعہ نے باضابطہ طور پر اپنے پپلے شوہر چودہری شکیل سے طلاق نہیں لی تھی اس لیے سید مختار کے ساتھ اس کی دوسری شادی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

اس کیس سے متعلق نئی تفتیشی ٹیم نے سامعہ شاہد کے مبینہ غیرت کے نام پر قتل کی ابتدائی تحقیقات کو ناکام بتایا ہے، جس میں قتل کے ممکنہ اسباب کا پتا لگانے کے بجائے مقتولہ کی ازدواجی حیثیت پر توجہ مرکوز رکھی گئی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ سامعہ شاہد کی پہلی اور دوسری شادی مبینہ قتل کے پیچھے کا اصل محرک نکل آئے۔ لیکن، ابتدائی طور پر موت کی وجہ کا تعین کرنا زیادہ اہم تھا۔

ذرائع کے مطابق، ابتدائی تحقیقات میں اس معاملے پر وقت ضایع کیا گیا ہے اور اس دوران جائے وقوعہ سے ثبوت برباد ہوگئے اور یہ کیس مزید پیچیدہ بن گیا۔

سامعہ شاہد کے طلاق اور دوسری شادی کے سرٹیفیکٹ کے نقول ٹیلی گراف کو حاصل ہوئی ہیں، جبکہ یہ دستاویزات تصدیق کے لیے برطانوی دفتر خارجہ کو بھجی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG