رسائی کے لنکس

سزائے موت کی بحالی: ’فیصلہ پاکستان کا معاملہ‘


فائل
فائل

’ہم پاکستانی حکومت کے ساتھ تمام سطح پر قریبی رابطے میں ہیں۔۔۔صدر اور وزیر خارجہ دونوں نے وزیر اعظم (نواز) شریف سے (ٹیلی فون پر) گفتگو کی۔ اس المناک حملے کے بعد، ہم نے ضروری اعانت فراہم کرنے کی پیش کش کی‘: امریکی محکمہٴ خارجہ

پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گرد حملے کے تناظر میں پاکستان میں سزائے موت بحال کیے جانے سے متعلق ایک سوال پر، منگل کے روز امریکی محکمہٴخارجہ کی ترجمان نے کہا ہے کہ ’اِس بات کا فیصلہ کرنا پاکستان کا کام ہے‘۔

بقول معاون خاتون ترجمان، میری ہارف، ’ہم پاکستانی حکومت کے ساتھ تمام سطح پر قریبی رابطے میں ہیں۔۔۔صدر اور وزیر خارجہ دونوں نے وزیر اعظم (نواز) شریف سے (ٹیلی فون پر) گفتگو کی۔ اس المناک حملے کے بعد، ہم نے ضروری اعانت فراہم کرنے کی پیش کش کی‘۔

اُن سے سوال کیا گیا تھا کہ انسانی حقوق کی ادارے پاکستان سےسزائے موت پر پابندی کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ممبئی دہشت گرد حملے کے مبینہ ملزم، ذکی الرحمٰن لکھوی کی ضمانت سے متعلق ایک سوال پر، معاون ترجمان نے کہا کہ ’ہمیں لشکر طیبہ کے راہنما سے متعلق اِس رپورٹ پر تشویش ہے‘۔

میری ہارف نے کہا کہ حکومتِ پاکستان نے یہ یقین دلایا تھا کہ ممبئی کے حملہ آوروں کو انصاف کی کٹہرے میں لایا جائے گا، اور ہم اُن پر زور دیتے ہیں کہ وہ اِس وعدے کو پورا کریں‘۔

اِس سلسلے میں ایک ضمنی سوال پر، ترجمان نے کہا کہ اُنھیں ضمانت دیے جانے کی رپورٹوں پر،’ہمیں تشویش ہے‘۔

بقول ترجمان، انسداد دہشت گردی کے ضمن میں، امریکہ پاکستان کے ساتھ انتہائی قریبی رابطے میں رہا ہے۔

میری ہارف نے بتایا کہ دنیا کے کسی اور ملک کے مقابلے میں، دہشت گردی کا شکار ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے؛ اور یہ بات واضح ہے کہ شدت پسندی ایک مشترکہ خطرہ ہے۔

افغانستان اور نیٹو افواج کے انخلا سے متعلق ایک سوال کے جواب میں، معاون خاتون ترجمان نے کہا کہ اِس سال کے ختم ہونے سے پہلے پہلے امریکہ افغانستان سے اپنی فوج واپس بلا لے گا، جس کے بعد، امریکہ کا کردار محض انسداد دہشت گردی کے تعلق کو برقرار رکھنا اور تربیت فراہم کرنا ہوگا۔

اُنھوں نے کہا کہ جاری موسم ِتعطیلات کے دوران، بہت سارے امریکی فوجی واپس آ چکے ہوں گے۔

ترجمان نے امریکہ افغانستان کے مابین سرحدی سلامتی سے متعلق باہمی معاہدے پر دستخط کا ذکر کیا، جِس ساجھے داری پر عمل درآمد کے لیے، افغان حکومت پُر عزم ہے۔ بقول ترجمان، یہ معاہدہ 2015ء کے دوران ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

ٕترجمان نے اِس توقع کا اظہار کیا کہ عبوری دور بخوبی انجام پائے گا، جس پر ہی اِس بات کا دارومدار ہوگا کہ افغانستان کے ساتھ امریکہ کی پارٹنرشپ کس طرح مزید آگے بڑھے گی۔

اس سوال پر کہ کیا افغانستان کی افواج اِس قابل ہیں کہ 2015ء میں ملک کی سکیورٹی کے معاملے کو اپنے طور پر سنبھال سکیں، معاون خاتون ترجمان نے کہا کہ ’یہ ایسی بات ہے جِس میں ہم اُن کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ سرحدی سلامتی کا باہمی معاہدہ طے پایا، جِس میں امریکہ کی طرف سے تربیت کا معاملہ اور افغانوں نے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی ذمہ داری قبول کی۔

XS
SM
MD
LG