رسائی کے لنکس

موجودہ دور کے فلمی گیت وقتی تسکین کا باعث: پروفیسر شہریار


موجودہ دور کے فلمی گیت وقتی تسکین کا باعث: پروفیسر شہریار
موجودہ دور کے فلمی گیت وقتی تسکین کا باعث: پروفیسر شہریار

‘دل چیز کیا ہے آپ میری جان لیجئے’۔ اِس مشہور فلمی گیت کے خالق ممتاز شاعر پروفیسر شہریار آج کے فلمی گیتوں سے مایوس ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ آج کے فلمی گیت صرف وقتی طور پر تسکین کا باعث ہیں۔

برصغیرِ ہندوپاک میں اردو ادب اور شاعری کے حوالے سے اپنی منفرد شناخت رکھنے والے اِس شاعر نے بالی وڈ کو کئی مقبول گیتوں سے نوازا لیکن وہ اب فلمی دنیا سے دوری اختیار کرچکے ہیں۔ اِس کی اہم وجہ یہ ہے کی شہریار آج کے دور کے فلمی گیت لکھنا پسند نہیں کرتے۔

اُن کا کہنا ہے کہ آج کے گیت وقتی تسکین کا باعث ہوتے ہیں۔ اِن کا معاملہ ‘سنو اور بھول جاؤ’ کی طرح ہے۔

پروفیسر شہریار نے ایک نیوز ایجنسی کو انٹرویو میں فلمی دنیا سے اپنی دوری کی وجوہات بیان کیں اور موجودہ دور کے گیتوں کا جائزہ لیا۔زندگی اور اِس کی تلخ حقیقتوں کو اپنی شاعری کاحصہ بنانے والے پروفیسر شہریار کو کسی بھی مشاعرہ کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔

اُن کا نام اخلاق محمد خاں شہریار ہے اور ادبی حلقوں میں پروفیسر شہریار کے نام سے مشہور ہیں۔1981ء کی کلاسیکی فلم امراؤجان کا مقبول خاص وعام گیت،‘دل چیز کیا ہے آپ میری جان لیجئے’، کے شاعر گذشتہ کئی برسوں سے فلمی دنیا سے دور ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ آج کے دور کے گیت نہیں لکھ سکتے کیوں کہ، بقول اُن کے، آج کے گیت صرف وقتی تسکین کا باعث ہوتے ہیں۔77 سالہ سہریار نے کہا کہ وہ آج کے گیتوں کی مخالفت نہیں کررہے ہیں لیکن وہ اِس طرح کے گیت نہیں لکھ سکتے۔اسی لئے وہ اس کام سے اپنے آپ کو دور کرچکے ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ جب کسی فلم میں وہ اِن کے گیتوں کی ضرورت اور پزیرائی کو محسوس کریں گے تو اس وقت گیت لکھیں گے۔
فلم ‘امراؤجان’ کے، ‘ان آنکھوں کی مستی’، اور، ‘جستجو جس کی تھی’ جیسے گیت آج بھی اردو والوں کی زبان پر ہیں۔

اُنھوں نے بتایا کہ امراؤجان کے بعد بھی کئی فلموں کے لئے انہوں نے گیت لکھے ان میں مظفر علی کی ایک فلم بھی شامل ہے تاہم ان میں سے بعض فلمیں ریلیز نہیں ہوئں ۔شہریار نے کہا کہ بالی وڈ سے دوری کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ وہ خود کو ایک پیشہ ور گیت کار نہیں مانتے اور وہ ممبئی میں بھی نہیں رہتے۔علی گڑھ میں سکونت اختیار کرنے والے شہریار کو 1987ء میں ان کے مجموعہ کلام، ‘خواب کا در بند ہے’، کے لئے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پرانے فلمی گیت آج بھی مقبول اور سدا بہار ہیں۔انہوں نے اس دعویٰ کو بھی مسترد کردیا کہ لوگ موجودہ دور کی موسیقی کو ہی پسند کررہے ہیں۔

شہریار نے کہا کہ آج بھی موسیقی کی دوکانوں پر جائیں تو پرانے گیتوں اور غزلوں کی مانگ کا اندازہ ہوتا ہے۔آج کے گیت صرف چند دن سنے جاتے ہیں اور پھر بھلا دیے جاتے ہیں کیوں کہ ان میں کوئی دھن نہیں ہوتی۔پروفیسر شہریار کے تین مجموعے ‘اسم اعظم’، ‘ساتواں درد’، اور ‘ ہجر کے موسم’ منظر عام پر آچکے ہیں۔

پروفیسر شہرہار کی ایک مشہور غزل کے چند شعر پیش خدمت ہیں:

زندگی جیسی توقع تھی نہیں کچھ کم ہے
ہر گھڑی ہوتا ہے احساس کہیں کچھ کم ہے
گھر کی تعمیر تصور ہی میں ہوسکتی ہے
اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے
بچھڑے لوگوں سے ملاقات کبھی پھر ہوگی
دل میں امید تو باقی ہے یقیں کچھ کم ہے
اب جدھر دیکھئے لگتا ہے کہ اس دنیا میں
کہیں کوئی چیز زیادہ ہے کہیں کچھ کم ہے
۔۔۔
امید سے کم چشم خریدار میں آئے
ہم لوگ زرا دیر سے بازار میں آئے
یہ آگ ہوس کی ہے جھلس دے گی اسے بھی
سورج سے کہو سایہ دیوار میں آئے
۔۔۔
تو کہاں ہے تجھ سے نسبت ہے میری ذات کو
کب سے پلکوں پہ اٹھائے پھررہا ہوں رات کو
میرے حصے کی زمیں بنجر تھی میں واقف نہ تھا
بے سبب الزام میں دیتا رہا برسات کو

XS
SM
MD
LG