رسائی کے لنکس

شیر شاہ سوری کے مقبرے کی بدحالی پر بہاراسمبلی میں اظہارِافسوس


شیر شاہ سوری کا مقبرہ، بے کسی کا مزار
شیر شاہ سوری کا مقبرہ، بے کسی کا مزار

سہسرام میں واقع شیر شاہ سوری کا مقبرہ فنِ تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے۔ لیکن وہاں پھیلی ہوئی گندگی اور تجاوزات کے سبب سیاح بہت کم تعداد میں جاتے ہیں اور اگر جاتے بھی ہیں تو وہاں کی گندگی اور بدنظمی کو دیکھ کر بد حظ ہو جاتے ہیں۔

اس سلسلے میں وہاں کی تنظیمیں مسلسل تحریک چلاتی رہی ہیں جس کے نتیجے میں ریاستی اور مرکزی حکومتیں متعدد احکامات بھی جاری کرتی رہی ہیں۔ اس کے باوجود جب کچھ خاطر خواہ نہیں ہو سکا تو کچھ غیر سرکاری تنظیموں نے پٹنہ ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا۔ اس کے بعد ہائی کورٹ کی بینچ نے وہاں سے تجاوزات ہٹانے اور تالاب کی صفائی کا حکم دیا۔ لیکن صورتحال اب بھی بہت تبدیل نہیں ہوئی ہے۔

نو مارچ سنہ 2010ء کو یہ معاملہ بہار اسمبلی میں رام دیو ورما نے اٹھاتے ہوئے سوال کیا کہ قومی وراثت کے حامل اس مقبرے کی حفاظت کے لیے ریاستی حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے ؟ ان کے سوال کے جواب میں فن اور ثقافت کی وزیر رینو دیوی نے بتایا کہ شیر شاہ سوری اور ان کے والد حسن خاں سور کے مقبرے کی نگرانی کی ذمہ داری آر کیلوجیکل سروے آف انڈیا کے ذمے ہے جو کہ مرکزی حکومت کا ادارہ ہے۔ اس لیے ریاستی حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ جو کچھ کرتی ہے وہ مرکزی حکومت کرتی ہے اور اسی کے افسران کے ذمہ اس کی دیکھ بھال بھی ہے۔

اس پر کچھ ممبران اسمبلی نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ مقبرہ بہار کے تاریخی مقام سہسرام میں واقع ہے۔ اس لیے حکومت بہار اور ریاستی انتظامیہ کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ اس کا خیال رکھے۔ ممبران کے ذریعہ تشویش کا اظہار کرنے پر پارلیمانی امور کے وزیر ویجندر پرساد یادو نے کہا کہ اگر اس سلسلے میں ممبران ایک غیر سرکاری تجویز پیش کریں تو ایوان اسے منظور کر کے مرکز کو بھیج سکتا ہے تاکہ مرکزی حکومت اس سلسلے میں مؤثر کارروائی کرے۔

واضح ہو کہ شیر شاہ سوری (1486ء سے 22مئی 1545ء) نے مغل شہنشاہ ہمایوں کو شکست دینے کے بعد پٹھان حکومت کی بنیاد ڈالی تھی اور انہوں نے صرف پانچ برسوں میں اصلاحات کے جو کارنامے انجام دیے وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے ہوئے ہیں لیکن آج اسی شیر شاہ کا مقبرہ بے کسی کا مزار بنا ہوا ہے۔

XS
SM
MD
LG