رسائی کے لنکس

سیاچن:135پاکستانی فوجیوں وشہریوں کےزندہ بچنےکے بہت کم امکانات


فوج کے ترجمان نے بتایا ہے کہ برفانی تودہ اپنے پیچھے جو برف چھوڑ گیا ہے وہ 80 فٹ سے زائد گہری اورایک کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ہے ،جس کے نیچے’ سکستھ ناردرن لائٹ انفنٹری بٹالین‘ سے تعلق رکھنے والے تمام کے تمام 135 افراد دبے ہوئے ہیں

پاکستانی فوج کا ایک بٹالین ہیڈکوارٹرہفتہ کی صُبح برفانی تودے کی زد میں آنے سے 124 فوجی اور11 شہری برف تلے دب گئے اور تقریبا چوبیس گھنٹے گزرنے کے بعد بھی کسی کو زندہ یا مردہ نکالنے میں کامیابی نہیں ہوسکی۔

یہ حادثہ شمالی قصبے سکردو کے قریب گیاری سیکٹر میں پیش آیا جو بھارتی سرحد کے قریب واقع ہے۔

رات دیر گئے فوج کے شعبہٴ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ نے ایک بیان میں حادثے کے شکار ہونے والے تمام افراد کے نام جاری کیے ہیں، جِن میں تین افسران بھی شامل ہیں۔

’’یہ بٹالین ہیڈکوارٹراِس مقام پر پچھلے 20 سالوں سے قائم ہے اوراس نوعیت کا واقعہ پہلے کبھی پیش نہیں آیا۔‘‘

فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے بتایا ہے کہ برفانی تودہ اپنے پیچھے جو برف چھوڑ گیا ہے وہ 80 فٹ سے زائد گہری اورایک کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ہے جس کے نیچے سکستھ ناردرن لائٹ انفنٹری بٹالین سے تعلق رکھنے والے تمام کے تمام 135 افراد دبے ہوئے ہیں۔

اُنھوں نے’ وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حادثے کی اطلاع ملتے ہی امدادی کارروائیاں شروع کردی گئیں، جن میں خصوصی تربیت یافتہ کھوجی کتے، ہیلی کاپٹر اورفوجی حصہ لے رہے ہیں، جبکہ برف ہٹانے کے لیے راولپنڈی سے بھاری مشینری بھی ہوائی جہازوں کے ذریعے سکردو منتقل کی گئی ہے۔

جنرل عباس کا کہنا ہے کہ برفانی تودے عمومی طور پررات کے وقت گرتےہیں مگر یہ واقعہ خلاف توقع صبح چھ بجے پیش آیا ۔

جس مقام پرحادثہ پیش آیا وہ سطح سمندر سے پندرہ ہزار فٹ بلند اور سیاچن گلیشئرکے داخلی حصے پر واقع ہے۔

بیس ہزار فٹ بلند سیاچن گلیشئر پر بھارت اور پاکستان کے ہزاروں فوجی تعینات ہیں اور یہاں درجہ حرارت منفی ساٹھ ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی کم ہوتا ہے۔

دنیا کے اِس بلند ترین میدان جنگ میں کسی زمانہ میں پاکستانی اور بھارتی افواج کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ معمول کی کارروائی ہوا کرتی تھی۔ دونوں ملکوں میں حکام یہ اعتراف کرتے ہیں کہ سیاچن پر جھڑپوں میں اتنی ہلاکتیں نہیں ہوئیں جتنی کے برفانی تودوں،اور موسمی حالات کی وجہ سے ہوچکی ہیں، اور تازہ حادثہ بھی اِسی سلسلے کی کڑی ہے۔

پاکستان اور بھارت کو سیاچن پر اپنی افواج کی تعیناتی پر ہر سال بھاری مالی وسائل صرف کرنا پڑتے ہیں، جبکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ مسلسل انسانی نقل و حرکت کی وجہ سے یہ گلیشیر تیزی سے پگھلنا بھی شروع ہوگیا ہے اور وہ دونوں ملکوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ وہاں سے اپنی فوجیں واپس بلالیں۔

دونوں حریف ملک 1989ء میں سیاچن گلیشئر سے اپنی افواج ہٹانے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کرنے پر راضی ہوگئے تھے مگر تکنیکی معاملات پر اختلافات کی وجہ سے آج تک اِس معاہدے کو حتمی شکل نہیں دی جاسکی ہے۔

پاکستانی صدر آصف علی زرداری اتوار کو نجی دورے پر بھارت کے شہر اجمیر شریف جائیں گے اور راستے میں نئی دہلی میں وزیر اعظم من موہن سنگھ کی دعوت پر اُن کے ساتھ ایک ظہرانے میں بھی شرکت کریں گے۔

بھارتی اور پاکستانی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اِس ملاقات میں سیاچن گلیشیر سے فوجیں واپس بلانے سمیت تمام تصفیہ طلب امور زیرِ بحث آئیں گے ۔

XS
SM
MD
LG