رسائی کے لنکس

سیاچن: امریکی اور ناروے کے ماہرین گیاری پہنچ گئے


مقامی زبان میں سیاچن کا مطلب جنگلی گلابوں کی سرزمین ہے اور بھارت نے 1984ء میں اس کے تین تہائی حصے پر قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد پاکستان نے بھی اس گلیشیئر پر اپنی فوجیں تعینات کر دیں۔

سیاچن گلیشیئر کےگیاری سیکٹر میں برف تلے دبے 139 افراد کی تلاش کا کام منگل کو بارویں روز بھی جاری رہا جس میں معاونت کرنے والی سوئس اور جرمن ٹیمیں اپنے حصے کا کام مکمل کرنے کے بعد پاکستان سے واپس چلی گئی ہیں۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ نے بتایا ہے کہ ان غیر ملکی ماہرین نے اپنی جائزہ رپورٹ میں تصدیق کی ہے کہ بٹالین ہیڈ کوارٹر کے ڈھانچے تک پہنچنے کے لیے امدادی کارکن درست مقامات پر کھدائی کر رہے ہیں۔

دریں اثنا ناروے اور امریکہ کی ٹیمیں بھی گیاری پہنچ چکی ہیں جہاں وہ چوبیس گھنٹے جاری رہنے والی امدادی کارروائیوں میں معاونت کر رہی ہیں۔

’’درجہ حرارت میں اضافے نے علاقے میں برفانی تودوں کے گرنے کے امکانات میں بھی اضافہ کر دیا ہے، لیکن اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ضروری حفاظتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔‘‘

بیان میں بتایا گیا ہے کہ ایک مقام پر کھودی جانے والی سرنگ کو مزید چوڑا کیا جا چکا ہے۔

’’لیکن وہاں پر زہریلی گیس کی موجودگی امدادی کارروائیوں میں رکاوٹ بنی ہے، جبکہ دیگر مقامات پر کھدائی کا کام تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے پورے زور شور سے جاری ہے۔‘‘

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ سات اپریل کو صُبح تین اور پانچ بجے کے درمیان ایک بہت بڑا برفانی تودہ گیاری میں قائم فوج کے بٹالین ہیڈکوارٹر پر جاگرا تھا۔

حادثے کے وقت تیرہ ہزار فٹ کی بلندی پر قائم اس فوجی تنصیب میں 128 پاکستانی فوجی اور گیارہ شہری ملازمین موجود تھے جو سب کے سب برف کے تودے تلے دب گئے۔

اس سانحہ کے بعد ایک بار پھر سیاچن گلیشئر سے فوجیں واپس بلانے کے لیے بھارت اور پاکستان سے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔

خود پاکستانی رہنماؤں نے بھی سرحد کی دونوں جانب مزید جانی نقصانات سے بچنے کی خاطر اس’’بے مقصد‘‘ جنگ کے خاتمے کے لیے بھارت سے 1989ء کے ’’معاہدے‘‘ پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے جس میں سیاچن سے افواج کے انخلا کے’’اُصولوں‘‘ پر اتفاق رائے ہوگیا تھا۔

منگل کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ اُنھوں نے وزیراعظم من موہن سنگھ سے حالیہ ملاقاتوں میں بارہا سیاچن سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل پر زور دیا ہے اور ان کے بھارتی ہم منصب بھی اس سے متفق ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ منگل کی شام کابینہ کی دفاعی کمیٹی ’ڈی سی سی‘ کے بلائے گئے اجلاس کا مقصد بھی متعلقہ حکام سے سیاچن کے گیاری سیکٹر میں جاری امدادی کارروائیوں سے آگاہی حاصل کرنا ہے۔

’’ہم سیاچن پر ملکی سرحدوں کا دفاع کرنے والے اپنے فوجیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور جو لوگ اس حادثے کا شکار ہوئے ہیں ان کی سلامتی کے لیے دعا گو ہیں۔‘‘

مقامی زبان میں سیاچن کا مطلب جنگلی گلابوں کی سرزمین ہے اور بھارت نے 1984ء میں اس کے تین تہائی حصے پر قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد پاکستان نے بھی اس گلیشئر پر اپنی فوجیں تعینات کر دیں۔

یہ خطہ دنیا کا بلند ترین محاذ جنگ ہے جہاں 20 ہزار فٹ سے زائد بلندی پر دونوں ملکوں نے فوجی چوکیاں قائم کر رکھی ہیں اور انھیں برقرار رکھنے کے لیے دونوں سالانہ اربوں روپے خرچ کرتے ہیں۔

بھارتی اور پاکستانی حکام سیاچن پر ہونے والے جانی نقصانات کی تفصیلات کو منظرعام پر نہیں لاتے لیکن غیر جانبدار دفاعی مبصرین کا ماننا ہے کہ دونوں جانب 95 فیصد ہلاکتوں کی وجہ گلیشئر کا سفاک موسم ہے جہاں سردیوں میں درجہ حرارت نقطعہ انجماد سے پچاس ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی نیچے گر جاتا ہے۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ سات اپریل کو پیش آنے والے واقعہ کی وجوہات کا تعین کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ گزشتہ 22 سالوں میں اس قدر سنگین نوعیت کا حادثے پہلے کبھی پیش نہیں آیا۔

ماحولیاتی ماہرین کا خیال ہے کہ سیاچن پر فوجی سرگرمیوں سے یہ گلیشیئر تیزی سے پگھل رہا جس کے جنوبی ایشیا کے ماحول پر خطرناک اثرات ہوں گے۔

سیاچن پر تحقیق کرنے والے پاکستانی ماہر ارشد عباسی کہتے ہیں کہ برفانی تودے کے حالیہ حادثے سمیت سیاچن پر سرحد کی دونوں جانب ایسے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

’’بظاہر ایسا لگتا ہے کہ گلیشئر اپنا انتقام لے رہا ہے اور اگر دونوں ملکوں نے فوجی سرگرمیاں ترک نہ کیں توآج گلیشئر رو رہا ہے، کل دنیا چلائے گی۔‘‘

سیاچن سے انخلا سے قبل بھارت اپنی افواج کی موجودہ پوزیشنوں کو بھارتی حصہ تسلیم کرنے سے مشروط کرتا ہے۔ لیکن پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارتی افواج نے 1984ء میں کشمیر میں لائن آف کنٹرول کو عبور کر کے پاکستان کے زیرانتظام حصے پر قبضہ کر رکھا ہے جو 1971ء کے شملہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

دونوں ملکوں کےدرمیان اس نکتے پر اختلاف اور باہمی اعتماد کا فقدان سیاچن پر تصادم کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

برفانی تودے کے نیچے 139 فوجی اہلکاروں کے دب جانے کے واقعہ کے بعد پاکستان کے مقامی اخبارات نے اپنے اداریوں جب کہ بعض مبصرین اپنے تبصروں میں حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ایسے جانی نقصانات اور کمزور قومی معیشت کے پیش نظر یکطرفہ طور پر سیاچن سے فوجیں واپس بلالے۔

لیکن پاکستان کو خدشہ ہے کہ کسی تیسرے فریق کی عدم موجودگی میں ایسے کسی بھی اقدام کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔

ایک اعلیٰ فوجی افسر کے بقول یکطرفہ طور پر سیاچن سے پاکستانی فوجوں کے انخلا سے گلگت اور اسکردو جیسے اہم شہر براہ راست بھارت کے نشانے پر آجائیں گے اور فوجی نقطعہ نظر سے ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے مستقبل میں بھارتی پیش قدمی کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

XS
SM
MD
LG