رسائی کے لنکس

سندھ میں سیلاب سے مزید تباہی، نقل مکانی جاری


صوبہ سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں جبکہ مزید درجنوں دیہات زیرِ آب آنے اور ہزاروں افراد کے سیلابی ریلے میں پھنس جانے کے بعد اب حکومت کا کہنا ہے کہ ممکنہ متاثرہ علاقوں سے لوگوں کا جبری انخلا کرایا جائے گا۔

حکام کے مطابق سیلابی ریلہ بالائی سندھ کے شہر ٹھل کے مضافات میں داخل ہوگیا ہے۔ شہر کی اسی فیصد آبادی علاقے سے نقل مکانی کر گئی ہے جبکہ پیچھے رہ جانے والے افراد کے انخلاء کا سلسلہ جاری ہے۔ ڈی سی او ضلع جیکب آباد کاظم جتوئی کا کہنا ہے کہ سیلابی پانی آئندہ چوبیس سے اڑتالیس گھنٹوں میں ٹھل سے جیکب آباد شہر پہنچ جائے گا، جس کے بعد جیکب آباد شہر اور مضافات سے بڑے پیمانے پر آبادی کی نقل مکانی شروع ہو چکی ہے۔

ریجنل ریونیو آفیسر سکھر رشید حسین قاضی نے سیلابی پانی ٹھل میں داخل ہونے کی تصدیق کی ہے۔ سکھر سے ٹیلی فون پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ سیلابی پانی اب ٹھل سے جیکب آباد کی جانب بڑھ رہا ہے جس سے شہر کے زیرِ آب آنے کا خدشہ موجود ہے۔ تاہم انتظامیہ پانی کا رخ موڑنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

رشید حسین قاضی نے بتایا کہ سکھر اور گڈو بیراج پر پانی کی سطح مسلسل کئی روز انتہائی سطح پر رہنے کے بعد اب گرنا شروع ہو گئی ہے اور اس وقت سکھر بیراج پر پانی کا بہائو دس لاکھ کیوسک کے لگ بھگ ہے، جس میں آئندہ 24 گھنٹوں میں مزید کمی آنے کا امکان ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ پانی کی سطح میں کمی کے باوجود لاڑکانہ اور سکھر کے شہروں کے ساتھ واقع حفاظتی بندوں پر پانی کا شدید دبائو برقرار ہے، جس کے باعث علاقے میں نافذ ریڈ الرٹ برقرار رکھا جائے گا۔

اطلاعات کے مطابق لاڑکانہ میں نصرت لوپ بند، عاقل آگانی لوپ بند، پرانا آباد لوپ بند اور حسن واہن لوپ بند سے پانی کا بڑا سیلابی ریلا گزر رہا ہے جس سے کچے کے سو سے زائد دیہات زیرِ آب آچکے ہیں۔

رشید حسین قاضی کے مطابق دریائے سندھ اور سکھر کے درمیان واقع حفاظتی دیوار سے تین سے چار مقامات پر پانی کا رسائو اب بھی جاری ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ دیوار کی مرمت کی جارہی ہے اور صورتحال انتظامیہ کے قابو میں ہونے کے باعث علاقے سے آبادی کے انخلا کی کوئی وارننگ جاری نہیں کی گئی۔

رشید قاضی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صرف بالائی سندھ میں سیلاب سے متاثرین کی تعداد 15 لاکھ کے قریب ہے، جن تک بروقت امداد کی فراہمی کے لیے صوبائی حکومت، فوج اور دیگر امدادی اداروں کی اعانت سے مصروفِ عمل ہے۔ تاہم بڑے پیمانے پر تباہی اور سہولیات کی کمی کے باعث اب بھی کئی علاقے ایسے ہیں جہاں تک حکومتی اداروں کی رسائی ممکن نہیں ہوسکی۔

دوسری جانب سیلابی ریلہ دریائے سندھ پر واقع آخری بیراج کوٹری بیراج کے قریب پہنچ گیا ہے، اور زیریں دریا میں پانی کی سطح میں مسلسل اضافے سے جمعرات کے روز ضلع جامشورو کے کچے کے علاقے میں مزید پچاس سے زائد دیہات زیرِ آب آگئے ہیں۔ انتظامیہ کے مطابق کل شام تک ضلع میں واقع کچے کا سو فیصد علاقہ سیلابی پانی میں ڈوب جانے کا امکان ہے۔ جس کے باعث پچاس ہزار سے زائد افراد کے بے گھر ہونے کا خدشہ ہے۔

تاہم ضلع جامشورو کے ریونیو آفیسر عبدالستار سومرو نے وائس آف امریکہ سے کوٹری بیراج کے مقام سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے بیراج پر سیلاب کی صورتحال انتظامیہ کے قابو میں ہونے کا دعوی کیا۔ سومرو کا کہنا تھا کہ بیراج سے جمعرات کی شام کو ڈھائی لاکھ کیوسک کا سیلابی ریلہ گزر رہا تھا، جس سے کچے کے علاقے کے کئی دیہات زیرِ آب آنے سے پانچ ہزار سے زائد لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جمعہ کی شام کو بیراج پر سیلاب کی ممکنہ شدت چھ لاکھ کیوسک تک بڑھ جانے کے بعد ضلع کا کچے کا سو فیصد علاقہ زیرِ آب آنے سے پچاس ہزار افراد نقل مکانی پہ مجبور ہوں گے۔

عبدالستار سومرو نے اردو وی او اے کو بتایا کہ اس وقت انتظامیہ کی جانب سے قائم کردہ 26 ریلیف کیمپس میں ساڑھے تین ہزار سے زائد متاثرہ افراد مقیم ہیں، جبکہ مزید افراد کے متاثر ہونے اور آبادی کے انخلا کے خدشے کے پیش نظر کل شام تک مزید 23 ریلیف کیمپ کام کرنا شروع کردیں گے۔

ضلعی حکومت حیدرآباد کے ترجمان اور امدادی سرگرمیوں کے نگران عابد سلیم قریشی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ دریا کے ساتھ واقع شہری آبادی قاسم آباد کے کچے کے علاقے سے گزشتہ دو روز کے دوران تین ہزار سے زائد افراد کا انخلا کرایا جاچکا ہے۔ جن میں سے ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد حکومتِ سندھ کی جانب سے قائم کردہ ریلیف کیمپوں میں مقیم ہیں۔

عابد سلیم کا کہنا تھا کہ کوٹری بیراج پر پانی کی سطح میں اضافے کے پیشِ نظر جمعہ کے روز لطیف آباد تحصیل کے کچے کے علاقوں سے مزید چار سے پانچ ہزار افراد کا انخلا مکمل کرلیا جائے گا جن کی رہائش کے لیے اقدامات مکمل کرلیے گئے ہیں۔

تاہم انہوں نے لطیف آباد کی شہری آبادی کے انخلا کے حوالے سے گردش کرنے والی اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ لطیف آباد کے ساتھ واقع حفاظتی بندوں کی صورتحال اطمینان بخش ہے اور محمکہ آب پاشی کی جانب سے علاقہ خالی کرنے کی کوئی وارننگ جاری نہیں کی گئی۔

عابد سلیم کا کہنا تھا کہ ممکنہ سیلاب کے پیشِ نظر محکمہ آب پاشی کی جانب سے یکم اگست سے ہی ضلع حیدرآباد کے حفاظتی بندوں کی مرمت کا کام شروع کردیا گیا تھا جو تاحال جاری ہے جس کے باعث بندوں کے تمام کمزور مقامات کی از سر نو مرمت کردی گئی ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ سیلابی پانی سے ضلع کے کچے کے علاقے ہر صورت زیرِ آب آئیں گے، جہاں سے بڑے پیمانے پر آبادی کا رضاکارانہ اور جبری انخلا جاری ہے۔

دریں اثنا بالائی سندھ سے موصولہ اطلاعات کے مطابق جیکب آباد، گھوٹکی اور خیرپور کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے ہزاروں افراد ریلوے لائنوں، سڑکوں اور دیگر اونچے مقامات پر کھلے آسمان تلے مقیم ہیں، جبکہ کئی مقامات تک تاحال حکومتی امداد نہیں پہنچ پائی۔ جیکب آباد میں زیرِ آب آنے والے کندھکوٹ، ٹھل، غوثپور اور کرم پور کے علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے افراد تک بھی حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کی امداد نہ پہنچنے کی شکایا ت ہیں۔

ایک اور سیلاب

پاکستان کے محکمہ موسمیات کی جانب سے جاری ہونے والی نئی فلڈ وارننگ میں دریائے سندھ میں گڈو اور سکھر کے مقامات پر آئندہ چند روز میں ایک اور نئے سیلاب کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے حکام سے ضروری حفاظتی اقدامات کا کہا گیا ہے۔

جمعرات کے روز جاری ہونے والی وارننگ کے مطابق ملک بھر میں ہونے والی نئی مون سون کی بارشوں کے باعث دریائے سندھ میں گرنے والے تمام دریائوں میں پانی کی سطح انتہائی بلند ہے، جس کے باعث آئندہ دو روزمیں دریائے سندھ میں ایک اور انتہائی بلند سطح کے سیلابی ریلے کی آمد متوقع ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق جمعے کی رات کسی وقت گڈو بیراج سے 9 سے 10 لاکھ کیوسک کا ایک نیا سیلابی ریلہ گزرنا شروع ہوگا جس کے باعث خیرپور، جیکب آباد، گھوٹکی اور سکھر کے پہلے سے متاثرہ اور زیرِ آب آنے والے علاقوں کے ایک بار پھر سیلابی پانی میں ڈوبنے کے امکانات ہیں۔ یہی ریلہ ہفتے کی رات یا اتوار کی صبح جب سکھر بیراج سے گزرے گا تو ضلع سکھر، لاڑکانہ، نوابشاہ، حیدرآباد اور نوشہروفیروز کو متاثر کرے گا۔

جبری انخلاء کا اعلان

صوبہ سندھ کے چیف سیکریٹری فضل الرحمن نے جمعرات کے روز ضلع ٹھٹھہ کے حفاظتی بندوں کی صورتحال کے معائنے کے بعد کہا کہ صوبے کے کچے کے علاقہ کے رہائشیوں کو ہر صورت محفوظ مقامات پر منتقل ہونا پڑے گا اور نقل مکانی سے انکار کرنے والوں کے انخلاء کے لیے فوج اور رینجرز کی مدد لی جائے گی۔

صدر زرداری کا دورہ

ہفتہ بھر طویل غیر ملکی دورے سے واپسی کے بعد بالآخر پاکستانی صدر آصف علی زرداری ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب کی تباہ کاریوں اور حکومتی اقدامات کے جائزہ کے لیے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے پہ پہنچے ہیں۔

جمعرات کے روز صدر زرداری نے ضلع سکھر کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور سیکیورٹی کے سخت پہرے میں منتخب سیلاب زدگان سے ملاقات کرکے ان کے حالات جانے۔

ملکی تاریخ کی بدترین آفت کے باوجود اپنا غیر ملکی دورہ منسوخ نہ کرنے پر صدر زرداری کو اندرونِ و بیرونِ ملک شدید تنقید کا سامنا ہے۔

صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر کے مطابق صدر زرداری نے ایک میل طویل سکھر بیراج کا دورہ کرنے کے ساتھ ساتھ متاثرین سیلاب سے ملاقات کی اور ان کے مسائل سنے۔ تاہم سرکاری میڈیا کے علاوہ کسی کو صدر کے دورہ کی کوریج کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

فوجی تقریبات کی منسوخی

ملک بھر میں سیلابی صورتحال اور تباہ کاریوں کے پیش نظر پاکستان کے آرمی چیف کی جانب سے 14 اگست کے جشنِ آزادی اور 6 ستمبر کو منائے جانے والے یومِ دفاع کے حوالے سے منعقد ہونے والی تمام فوجی تقریبات کی منسوخی کا اعلان کیا گیا ہے جن پر خرچ کی جانے والی رقم اب سیلاب زدگان کی امداد پر خرچ کی جائے گی۔ اس بات کا اعلان چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے راولپنڈی جنرل ہیڈ کوارٹرز میں منعقدہ کور کمانڈرز کانفرنس میں کیا جس میں ملک مین سیلاب کی صرتحال اور پاک فوج کی جانب سے جاری امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیا گیا۔

XS
SM
MD
LG