رسائی کے لنکس

سندھ کے سیاسی بحران میں اضافہ، فنکشنل لیگ کے وزرا بھی مستعفی


شیخ امتیاز۔ سیاست دان سندھ
شیخ امتیاز۔ سیاست دان سندھ
سندھ حکومت کی جانب سے صوبے میں بلدیاتی نظام سے متعلق آرڈیننس جاری کرنے کے بعد حکمران اتحاد میں پھوٹ پڑگئی ہے اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے بعد پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کے وزرا اور مشیران نے بھی کابینہ سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا ہے۔

جمعے کی شام کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فنکشنل لیگ کے رہنما اور خصوصی تعلیم کے صوبائی وزیر امتیاز شیخ نے کہا کہ نئے بلدیاتی نظام کے ذریعے سندھ کو تقسیم کردیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلدیاتی نظام پر فیصلہ اتحادیوں کو اعتماد میں لیے بغیر رات کی تاریکی میں کیا گیا جس پر ان کی جماعت کو تحفظات ہیں۔

امتیاز شیخ نے بتایا کہ حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ فنکشنل لیگ کے سربراہ پیر پگارا کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں کیا گیا ہے اور پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزرا اور مشیران اپنے استعفیٰ وزیرِ اعلیٰ سندھ کو روانہ کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ سندھ کے گورنر عشرت العبادنے جمعے کی صبح صوبے میں نئے بلدیاتی نظام کا آرڈیننس جاری کیا تھا جو فوری طور پر نافذ العمل ہو گیا ہے۔

'پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2012ء' نامی یہ قانون پیپلز پارٹی اور اس کی اہم اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان کئی روز کے تفصیلی مذاکرات کے بعد جاری کیا گیا ہے تاہم اس کے اجرا کے فوری بعد ہی حکمران اتحاد میں اختلافات سامنے آنے لگے تھے۔

سندھ کے حکمران اتحاد میں شامل عوامی نیشنل پارٹی نے نئے آرڈیننس کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہوئے جمعے کو ہونے والے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں کا بائیکاٹ کیا تھا جب کہ سندھ کابینہ میں شامل 'اے این پی' کے واحد وزیر امیر نواب بھی احتجاجاً مستعفی ہوگئے تھے۔

اے این پی کے رہنماؤں نے پیپلز پارٹی پر تنقید کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ نیا بلدیاتی نظام صرف ایک جماعت، یعنی ایم کیو ایم کو خوش کرنے کے لیے لایا گیا ہے جس پر حکمران اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

نئے بلدیاتی نظام کے تحت کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، سکھر اور لاڑکانہ کو میٹروپولیٹن کارپوریشنز کا درجہ دیا گیا جس کا سربراہ مئیر کہلائے گا جب کہ صوبے کے باقی اضلاع میں ضلعی کونسل کا انتخاب کیا جائے گا جس کے سربراہ کو چیئرمین ’ضلع کونسل‘ کا نام دیا گیا ہے۔

نئے بلدیاتی نظام پر صوبے میں حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں اور قوم پرست حلقوں نے بھی سخت ردِ عمل ظاہر کیا ہے اور امکان ہے کہ آنے والے دنوں میں اس پر سخت احتجاج سامنےآئے گا۔
XS
SM
MD
LG