رسائی کے لنکس

جہاز سے چھلانگ لگانا


جہاز سے چھلانگ لگانا
جہاز سے چھلانگ لگانا

اِس دلیرانہ کھیل میں کھلاڑی انتہائی بلندی سے جہاز سے چھلانگ لگانے کے بعد ایک منٹ تک تیزی سے زمین کی طرف گرتے چلے جاتے ہیں ، جسے ’فری فال‘ کہا جاتاہے، جس کے بعد، پیراشوٹ کھل جاتا ہے اور کچھ دیر تک فضا میں رہنے کے بعد کھلاڑی زمین پر اتر جاتے ہیں

جہاز سے چھلانگ لگانے کا کھیل یا Skydiving دنیا بھر میں تیزی سے مقبول ہو رہا ہے اور خطرات کے باوجود، نوجوان اس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔

’وائس آف امریکہ اردو‘ کے ثاقب الاسلام نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہ کھیل کتنا خطرناک ہے اور 13 ہزار فٹ کی بلندی سے چھلانگ لگاتے ہوئے دل پر کیا گزرتی ہے؟

امریکی ریاست ورجینیا کی اورنج کاونٹی میں واقع ایک چھوٹا سا ایئر پورٹ اسکائی ڈائیو کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر روز ورجینیا ، میری لینڈ اور واشنگٹن ڈی سی سے کئی نوجوان یہاں جہاز سے چھلانگ لگانے کے لیے آتے ہیں۔

آج بھی یہاں بہت سے نوجوان نظر آرہے ہیں جو پہلی بار اسکائی ڈائیو کر رہے ہیں۔ اُن سے بات کر کے پتا چلا کہ زیادہ تر اپنی سالگرہ پر اپنے آپ کو اِس پر خطرناک کھیل کھیلنے کا تحفہ دے رہے ہیں۔ اسٹیفنی ایک قریبی شہر رچمنڈ سے آئی ہیں اورآج اُن کی 22 ویں سالگرہ ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ آج کے دن اپنے دل اور دماغ سے بلندی سے گرنے کے خوف کو نکالنے کے لیے جہاز سے چھلانگ لگا رہی ہیں۔

اس کھیل میں کھلاڑی انتہائی بلندی سے جہاز سے چھلانگ لگانے کے بعد ایک منٹ تک تیزی سے زمین کی طرف گرتے چلے جاتے ہیں ، جسے فری فال کہا جاتاہے۔ جس کے بعد، پیراشوٹ کھل جاتا ہے اور کچھ دیر تک فضا میں رہنے کے بعد کھلاڑی زمین پر اتر جاتے ہیں۔

پہلی بار اور تفریح کے لیے اسکائی ڈائیو کرنے والے ایک تجربہ کار کھلاڑی کے ساتھ کودتے ہیں جسے ’انسٹرکٹر ‘کہا جاتا ہے ۔ نئے کھلاڑیوں کو اپنے انسٹرکٹر کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے، جسے’ ٹینڈم‘ کہا جاتا ہے۔ کودنے کے بعد انسٹرکٹر پیراشوٹ کھولنے اور زمین پر اترنے میں کھلاڑی کی مدد کرتا ہے۔

اسٹیفنی کے ساتھ باقی تین لوگ بھی پہلی بار اسکائی ڈائیو کرنے جا رہے تھے، جِن میں میں بھی شامل تھا۔

مختصر سی ٹریننگ کے بعد، جس میں چھلانگ لگاتے اور زمین پر اترتے ہوئے احتیاطی تدابیر بتائی جاتی ہیں، سب لوگ جہاز کی طرف بڑھے۔ جہاز جوں جوں رفتار پکڑ رہا تھا اسمیں موجو د لوگوں کے چہروں پر جوش و لولے کے ساتھ کچھ پریشانی بھی دکھنے لگی۔ خاص طور پر پہلی بار چھلانگ لگانے والوں کے چہروں پر۔ ڈیوڈ اگرچہ آج 30 سال کے ہو رہے تھے، لیکن وہ ایک بچے کی طرح پر جوش انداز میں کودنے کے لیے بیتاب دکھ رہے تھے۔ 13 ہزار فٹ کی بلندی پر جہاز کا دروازہ کھولا گیا تو تما م لوگوں نے ایک زور دار چینخ کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ تمام لوگوں نے اپنے اپنے پیراشوٹس کو دوبارہ سے چیک کیا اور آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھے۔ چند کھلاڑی جو کودنے والوں کی تصویریں لیتے ہیں پہلے کودے، انھیں کودتا دیکھ کر نئے کھلاڑیوں کو حوصلہ ملا۔ لیکن سٹیفنی کچھ ڈر گئیں اور تھوڑی دیر کے لیے انھیں رکنا پڑا، جس کے بعد میرا نمبر تھا۔

جہاز کے دروازے پر کھڑے ہو کر باہر دیکھنا ایک منفرد تجربہ تھا۔

تند و تیز ہوا اور انجن کی آواز کے ساتھ باہر ہا ماحول کچھ ڈراوٴنا، لیکن نہایت خوابناک لگا۔ مسلسل نیچے دیکھنے سے منع کیا جاتا ہے کیونکہ چھلانگ لگاتے ہوئے آپ کو اپنے سر کو اونچا رکھنا پڑتا ہے تاکہ انسٹرکٹر ، جو آپ کے ساتھ بندھا ہوتا ہے ، اس پر زیادہ وزن نا پڑے۔ کودنے سے پہلے انسٹرکٹر نے تین بار پوچھا کہ ’ آر یو ریڈی ؟‘ یعنی آپ واقعی یہ کرنا چاہتے ہیں۔ اور تین بار قبول کرنے کے ساتھ ہی ہم ہوا میں معلق تھے۔ آس پاس تیز ہوا کی آواز کے ساتھ کشش ِثقل کی باعث تیزی سے نیچے آتے ہوئے وہ خوف جو جہاز کے دروازے پر کھڑے ہو کر محسوس ہوا تھا، ایک لمحے کے لیے اپنی انتہا کو پہنچا اور پھر ایک انتہائی پرجوش تجربے میں بدل گیا۔ تصویریں لینے والا کھلاڑی قریب آیا اور ہوا میں ہاتھ ملایا۔ ایک منٹ کے اس تیز رفتار اور ناقابل بیان تجربے کے بعد انسٹرکٹر نے پیرا شوٹ کھولا اور ہم ہوا میں تیرنے لگے۔

انتہائی بلندی سے زمین کو دیکھنے اور دور افق میں زمین اور آسمان کو ملتے ہوئے ہوئے دیکھنے کا یہ ایک ایسا احساس تھا جسے الفاظ میں ڈھالنا بہت مشکل ہے ۔

اِس دوران، انسٹرکٹر سے باتیں بھی ہوئیں اور آہستہ آہستہ زمین قریب آنے لگی۔ اب سب سے آخری اور مشکل مرحلہ تھا بحفاظت زمین پر اترنا۔

تھوڑی دیر کے لیے پیرا شوٹ کو سنبھالنے پر پتہ چلا کہ یہ واقعی بہت مشکل کام ہے ، اس لیے اپنے انسٹرکٹر پر مکمل اعتماد کے ساتھ ہم نے زمین پر اترنے میں بھی اپنی ہاں کردی۔ لیکن یہ مرحلہ جتنا مشکل اور پرخوف لگ رہا تھا اس کے برعکس ہم نہایت آرام سے زمین پر واپس پہنچ گئے۔

اگرچہ دیکھنے میں یہ کھیل انتہائی خطرناک نظر آتا ہے، لیکن حقیقت میں اس کھیل میں خطرات دوسرے کھیلوں جتنے ہی ہیں یا ان سے کم ہیں۔

کیون گبسن ، جو ایک انسٹرکٹر ہیں، گزشتہ 35 سال سے اس کھیل سے وابستہ ہیں اور نو ہزار سے زائد مرتبہ جہاز سے چھلانگ لگا چکے ہیں۔ وہ اس کھیل کو ایک پیشے کے طور پر اپنائے ہوئے ہیں اور نئے آنے والے کھلاڑیوں کو تربیت دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے اگر آپ اپنی تربیت پر دھیان دیں اور انسٹرکٹر کی باتوں پر عمل کریں تو اس کھیل میں خطرات نہایت کم ہو جاتے ہیں۔

امریکہ میں اس کھیل سے وابستہ لوگوں کی تعداد تقریبا ایک لاکھ ہے اور ہر سال 25 لاکھ سے زائد مرتبہ لوگ جہاز سے چھلانگ لگاتے ہیں لیکن ان میں سنگین حادثات محض 35 سے 40 ہی رہتے ہیں۔ یعنی 10 لاکھ چھلانگوں میں صرف 15۔

یہی وجہ ہے کہ اب اس کھیل میں خواتین بھی دلچسپی لے رہی ہیں۔

پامیلا ینگ بھی اس کھیل کی تربیت دیتی ہیں اور 17 سال سے یہ کام کر رہی ہیں ۔ انھوں نے تقریبا 5 ہزار سے زائد مرتبہ اسکائی ڈائیو کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے اب اس کھیل میں تقریبا 15 فیصد خواتین بھی شامل ہیں۔ پامیلا پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل ہیں لیکن معیشت کی خراب صورتحال کے باعث انھوں نے اسکائی ڈائیونگ کو بھی ایک پیشے کے طور پر اپنایاہے۔

اسکائی ڈائیونگ اورنج میں موجود تجربہ کار اسکائی ڈائیورز کا کہنا ہے کہ اس کام میں سب سے مشکل مرحلہ زمین پر بحفاظت واپس پہنچنا ہے، جس کے دوران سب سے زیادہ ،یعنی 31 فیصد حادثات پیش آتے ہیں۔ عام طور پر پیراشوٹ کو سنبھالنا اور اترتے ہوئے حفاظتی تدابیر کا دھیان رکھنا نہایت ضروری ہے۔

XS
SM
MD
LG