رسائی کے لنکس

صومالیہ کے قصبے پر عسکریت پسندوں کا قبضہ


کینیا کی سرحد کے نزدیک صومالیہ کا ایک قصبہ جس پر کنٹرول کے لیے مختلف دھڑوں کے درمیان جنگ ہوتی رہی ہے، کئی روز کی لڑائی کے بعد ایک بار پھر حزب الاسلام کے قبضے میں آ گیا ہے۔

ڈوبلی کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ایک دن کی شدید لڑائی کے بعد جس میں ایک درجن افراد ہلاک ہوئے، اب شہر میں خاموشی ہے۔ حزب الاسلام کے کمانڈروں نے بتایا کہ انھوں نے الشباب کے جنگ جوؤں کے اسلحہ سے بھرے ہوئے کئی ٹرکوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ الشباب کے جنگجو جنوب کے بندرگاہ والے شہر کسماؤ کی طرف فرار ہو گئے۔

ڈوبلی پر الشباب کے عسکریت پسندوں نے نومبر میں قبضہ کیا تھا جب حزب الاسلام کے لیڈر احمد مادوبے اور ان کی فورسز کو وہاں سے بھاگنا پڑا تھا۔ اس مہینے میں دوسری بار مادوبے نے منگل کے روز ڈوبلی میں الشباب پر حملہ کیا لیکن وہ شہر پر دوبارہ قبضہ نہیں کر سکے۔

احمد مادوبے کا حزب الاسلام کا دھڑا ستمبر میں الشباب سے الگ ہو گیا تھا۔ ان کے درمیان کسماؤ پر اقتدار کے سوال پر جھگڑا ہوا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک لوئر جبہ کے علاقے کے بہت سے قصبوں میں الشباب اور مادوبے کی فورسز کے درمیان بار بار جھڑپیں ہوئی ہیں۔لیکن یہ بات واضح نہیں ہے کہ الشباب پر جمعرات کے حملے کی قیادت کس نے کی تھی۔ جبہ کے علاقے میں، حزب الاسلام کے ترجمان عبدِ ناصر کا کہنا ہے کہ ان کے گروپ نے حملہ کیا تھا اور ڈوبلی پر اس کا کنٹرول ہے۔ لیکن عبوری پارلیمنٹ کے رکن اور مقامی قبیلے کے ملیشیا گروپ جبہ تحریکِ مزاحمت کے سربراہ، محمد امین عثمان کا کہنا ہے کہ حملہ ان کی فورسز نے کیا تھا اور حزب الاسلام کے جنگ جوؤں نے ان کی مدد کی تھی۔ ان کے الفاظ ہیں:

انھوں نے ہمارا ساتھ دیا کیوں کہ ان کا تعلق اسی علاقے سے ہے اور وہ اسی قبیلے کا حصہ ہیں۔ اس طرح، ہم الشباب کے خلاف ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔ لیکن ہماری ملیشیا ڈوبلی سے نکل آئی ہے۔ ہمیں کسی کی طرف سے کوئی امداد نہیں ملی ہے اور نہ ہمارے پاس گولہ بارود اور دوسرا سامان ہے۔اس لیے ہم ڈوبلی کا دفاع جاری نہیں رکھ سکتے۔

عثمان کہتے ہیں کہ جبہ کے علاقے میں حزب الاسلام اور جبہ تحریکِ مزاحمت دونوں کا مقصد ایک ہے، یعنی الشباب کو شکست دینا جو القاعدہ سے وابستہ گروپ ہے۔ اس گروپ کو امریکہ سمیت مغرب کے بہت سے ملکوں نے دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔

لیکن عثمان کہتے ہیں کہ ان کا گروپ حزب الاسلام کے مذہبی ایجنڈے سے متفق نہیں ہے۔ جبہ تحریکِ آزادی کی توجہ ایک نیم خود مختار انتظامیہ کی تخلیق پر ہے جو اقوام متحدہ کی حمایت سے قائم ہونے والی صومالیہ کی عبوری وفاقی حکومت کے تحت کام کرے گی۔ اس کا ایک ماڈل پنٹ لینڈ کا علاقہ ہے، شمالی صومالیہ کے اس نیم خود مختار علاقے نے 1998ء میں اپنی انتظامیہ قائم کی تھی۔ عثمان کہتے ہیں:

مقامی لوگ حزب الاسلام کی حمایت نہیں کرتے۔ وہ عبوری وفاقی حکومت کے حامی ہیں لیکن وفاقی حکومت عوام کی حمایت نہیں کرتی۔ مسئلہ یہی ہے۔ اگر ہمارے پاس ضروری ساز و سامان ہو، تو ہم کسماؤ پر بلکہ پورے علاقے پر قبضہ کر سکتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری ہمیں نظر انداز کر رہی ہے۔

حالیہ مہینوں کے دوران وسطی اور جنوبی صومالیہ کے علاقائی لیڈروں میں، نیم خود مختار زون قائم کرنے کا خیال مقبول ہو ا ہے۔ ان لیڈروں کا خیال ہے کہ موغادیشو میں وفاقی حکومت اقتدار اور وسائل کو منصفانہ طریقے سے تقسیم کرنا نہیں چاہتی۔ لیکن الشباب کا مخالف ایک گروپ جسے اہل سنت والجماعت کہا جاتا ہے وسطی صومالیہ میں نیم خود مختار انتظامیہ قائم کرنے کی تجویز ترک کرنے کو تیار معلوم ہوتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، یہ گروپ جو صوفی مسلک کے مذہبی لیڈروں اور مختلف دھڑوں کے لیڈروں پر مشتمل ہے، عبوری وفاقی حکومت میں شامل ہونے کو تیار ہے بشرطیکہ اسے کابینہ میں کئی سینیئر وزارتیں دے دی جائیں۔ اس سلسلے میں ادیس ابابا میں مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔ اہلِ سنت کے ترجمان شیخ عبد القادر شیخ عبد الرحمان القاضی کہتے ہیں کہ ان کا گروپ ملک کے تمام حصوں کو اگلے چھ مہینوں میں الشباب کے کنٹرول سے آزاد کرانے کو تیار ہے اور فوجی کارروائی جلد ہی شروع کر دی جائے گی۔

حالیہ ہفتوں کے دوران، صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو سے فرار ہو تے رہے ہیں کیوں کہ یہ افواہیں عام ہیں کہ حکومت او ر الشباب کے درمیان لڑائی کسی بھی وقت شروع ہو سکتی ہے۔

XS
SM
MD
LG