رسائی کے لنکس

جنوبی افریقہ میں غیر ملکیوں کے خلاف نفرت انگیز حملے


جنوبی افریقہ کے حکام اس بات کی تردید کر رہے ہیں کہ ملک میں غیر ملکیوں کے خلاف نفرت انگیز حملے جاری ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ مجرمانہ کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔

جنوبی افریقہ میں غیر ملکیوں کے خلاف نفرت انگیز حملوں میں پانچ افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہو چکے ہیں۔ پہلے ان حملوں کا نشانہ صومالیہ اور ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی دکانداروں کو بنایا گیا۔ مگر اب یہ تشدد تمام غیر ملکی افریقیوں کے خلاف پھیل رہا ہے جس سے بہت سے لوگ شدید خوفزدہ اور مایوس گئے ہیں۔

صومالیہ سے تعلق رکھنے والے ابراہیم محمد علی جوہانسبرگ میں کافی کی ایک دکان چلاتے ہیں۔ 2008 میں ہونے والے ایسے ہی حملوں کی یاد ان کے ذہن میں تازہ ہے۔ ان حملوں میں ان کا بھائی ہلاک اور گاڑیاں مرمت کرنے کا ان کا کاروبار تباہ ہو گیا تھا۔

ان واقعات کو یاد کرتے ہوئے محمد علی نے کہا کہ ’’اس وقت میرا بھائی یہاں تھا، غیر ملکیوں سے نفرت کرنے والوں نے اسے مار دیا۔ میرا بھائی چلا گیا۔ انہوں نے غیر ملکیوں سے نفرت میں لوٹ مار میں اسے مار دیا۔ میرے تمام اوزار، تمام پیسے چلے گئے۔‘‘

سات سال بعد یہ حملے دوبارہ شروع ہو گئے ہیں اور انہوں نے غیر ملکیوں کو سخت خوفزدہ کر دیا ہے۔ سب سے پہلے صومالیہ اور ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے دکانداروں کو سوویٹو میں نشانہ بنایا گیا۔ مقامی لوگوں نے ان کو مارنے اور بھگانے کے بعد ان کی دکانوں پر قبضہ کر لیا۔

اس کے بعد ڈربن میں غیرملکی دکانداروں کو نشانہ بنایا گیا اور اب تمام غیرملکی افریقیوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنا بوریا بستر اٹھائیں اور وہاں سے چلے جائیں۔ ان حملوں سے ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے ہیں اور عارضی کیمپوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔

ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والی سارہ کڈانے سوویٹو میں اپنی دکان سے زبردستی نکالے جانے کے بعد ابھی تک جذباتی صدمے سے دوچار ہیں۔

انہوں نے روتے ہوئے کہا ’’میں ٹھیک محسوس نہیں کر رہی۔ میرا بہت کچھ کھو گیا، میری زندگی بھی خطرے میں تھی، لیکن میں کیا کہہ سکتی ہوں۔ میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں۔ میں واپس نہیں جا سکتی۔ وہاں لوگ اچھے نہیں۔ وہ یہ سب دوبارہ کریں گے۔‘‘

دوسرے متاثرین نے کہا کہ جنوبی افریقہ کی پولیس ان کی حالتِ زار سے نظریں چرا رہی ہے۔ 32 سالہ گِٹاو آنیو بھی انہی میں سے ہیں۔

انہوں نے کہا ’’میں پولیس کے پاس گئی تھی لیکن کسی نے میری اس وقت مدد نہیں کی۔ میں پولیس اسٹیشن میں تھی مگر وہاں پولیس نہیں تھی۔ مجھے نہیں معلوم کیا ہو رہا تھا۔‘‘

جان آلیمو کی طرح بہت سے لوگ ان حملوں سے الجھن کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم سب افریقی بھائی ہیں مگر وہ لوگ ہمیں تنگ کر رہے ہیں۔ وہ ہمارے بھائیوں کو ہلاک کرتے ہیں اور ہماری دکانیں لوٹتے ہیں۔‘‘

جنوبی افریقہ کے حکام اس بات کی تردید کر رہے ہیں کہ ملک میں غیر ملکیوں کے خلاف نفرت انگیز حملے جاری ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ مجرمانہ کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔

اگرچہ حملوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے، مگر غیر ملکی، خصوصاً صومالیہ اور ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے افراد کہتے ہیں کہ وہ اپنے ملکوں میں واپس جانے کی بجائے جنوبی افریقہ میں مرنے کے لیے تیار ہیں کیونکہ وہاں انہیں اس سے بھی زیادہ تشدد کا سامنا کرنے کا امکان ہے۔

XS
SM
MD
LG