رسائی کے لنکس

بحیرہ جنوبی چین کا تنازع آسیان کے مشترکہ اعلامیہ میں شامل نہیں


چین اور خطے کے دیگر ممالک خصوصاً فلپائن اور ویتنام کی طرف سے بحیرہ جنوبی چین میں ملکیتی دعوؤں کو لے کر کئی برسوں سے تناؤ چلا آ رہا ہے۔

جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی تنظیم 'آسیان' کے وزرائے دفاع کے بدھ کو ملائیشیا میں ہونے والے اجلاس کے بعد کسی مشترکہ اعلامیہ پر دستخط نہیں کیے گئے۔

کہا جا رہا ہے کہ تنظیم میں شامل چین کے حامی ممالک کے اثر رسوخ کی وجہ سے بحیرہ جنوبی چین کے تنازع کو اس میں شامل نہیں کیا جا گیا۔

چین اور خطے کے دیگر ممالک خصوصاً فلپائن اور ویتنام کی طرف سے بحیرہ جنوبی چین میں ملکیتی دعوؤں کو لے کر کئی برسوں سے تناؤ چلا آ رہا ہے۔ حال ہی میں چین کی طرف سے یہاں مصنوعی جزائر تعمیر کرنے کے سبب اس جزیزے پر ملکیت کے دعوے دار ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

بدھ کو ہونے والے اجلاس میں آسیان کے دس ارکان اور چین کے علاوہ امریکہ، آسٹریلیا، بھارت اور جاپان کے نمائندے شریک ہیں۔

امریکی محکمہ دفاع کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ یہ بہتر ہوتا کہ آسیان ایسا کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری ہی نا کرتی، جس میں بحیرہ جنوبی چین کا ذکر شامل نہ ہو۔

چین کی وزارت دفاع نے مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے میں ناکامی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ جنوب مشرقی ایشیا سے "باہر کے بعض ممالک" اس کے ذمہ دار ہیں۔

امریکہ چین سے کہتا رہا ہے کہ وہ بحیرہ جنوبی چین میں تعمیرات روکے کیونکہ اس کے بقول ایسے اقدام خطے میں عدم استحکام کا باعث بن رہے ہیں۔

چینی حکام ان تعمیرات کا دفاع یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ ان کا مقصد متنازع آبی گزر گاہ سے گزرنے والے بحری جہازوں کی مدد کرنا ہے۔

گزشتہ ہفتے ہی امریکہ کا ایک جنگی بحری جہاز اسپارٹلی جزائر کے قریب 22 کلومیٹر کے علاقے سے گشت کرتا ہوا گزرا جس کے بارے میں امریکی حکام کہنا ہے کہ اس سفر بین الاقوامی قوانین کے تحت آزاد نقل و حمل کے تحت تھا۔

XS
SM
MD
LG