رسائی کے لنکس

سویت تارکین وطن امریکہ میں خوش ہیں


سویت تارکین وطن امریکہ میں خوش ہیں
سویت تارکین وطن امریکہ میں خوش ہیں

گزشتہ ہفتے سویت یونین کے خاتمے کی بیسویں برسی منائی گئی ۔سویت یونین کے خاتمے کے بعدقائم ہونے والی نئی ریاستوں سے اب تک لاکھوں تارکین وطن دنیا کے مختلف ممالک میں جا کر آباد ہو چکے ہیں ۔ ان میں سے بہت سے نیویارک میں آباد ہوچکے ہیں جن میں ارینا شملیوا بھی شامل ہیں۔

وہ نیو یارک میں ایک مارکٹنگ کنسلٹنٹ ہیں اور اپنے آبائی ملک روس کے حالات کے بارے میں تازہ معلومات کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک روسی اداکارہ کی حیثیت سے انہوں نے بہت آرام دہ زندگی گزاری مگر آزادی کے فقدان کی وجہ سے انہیں مجبوراً وہاں سے نکلنا پڑا۔

ان کا کہناہے کہ سویت دور میں ہر فرد کو ایک فوجی کی طرح ہونا پڑتا تھا۔یعنی ایسا ظاہر کرنا کہ سب کچھ ٹھیک ہے ۔ مگر جب آپ اپنے بارے میں سوچنا چاہتے ہوں، اپنی منزل تلاش کرنا چاہتے ہوں ، تو یہ ناممکن تھا۔

اریناکہتی ہیں کہ روس میں حالیہ مظاہروں سے نوجوان شاید آخر کار وہ آزادی حاصل کر لیں جس کی امید انہیں سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعدپیدا ہوئی تھی مگر جو ولادی میر پوٹن کے برسراقتدار آنے کے بعد چکنا چور ہوگئی تھی۔

یوکرین میں زراعت اور صنعتی پیداوار کی وجہ سے کچھ دیر کے لئے ایسی توقعات ابھریں کہ ملک میں معیار زندگی بہت بلند ہوگا۔ مگر اس کی بجائے وہاں توانائی کی قیمتیں بلند ہوئیں جسے سویت یونین کے دور میں زرتلافی کی مدد سے کم رکھا گیا تھا۔

نیویارک کے شوچینکو سائنٹیفک سوسائٹی سے منسلک یوکرین سے تعلق رکھنے والے ایک اسکالر ویسل لوپوک کہتے ہیں کہ یوکرین کو شروع میں احساس نہیں ہوا کہ سویت دور کا پرانا صنعتی نظام کارآمد نہیں رہے گا۔ ان کا کہناتھا کہ یوکرین میں 60 سے 65فی صد مزدور براہ راست یا بالواسطہ دفاعی نوعیت کی صنعتوں سے وابستہ تھے۔

مگر جب سویت فوج کے لئے اسلحے ، یونیفارم اور خوارک کی طلب نہ رہی یا کم ہوگئی تو بہت سے لوگ بے روزگار ہو گئے۔ اوریوکرین میں بدعنوانی کا مسئلہ اس کے یورپی یونین میں شمولیت میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ویسل کہتے ہیں یوکرین کی قیادت میں مدبرانہ بصیرت کی کمی ہے۔

ازبکستان سے تعلق رکھنے والےاسحاق جان زوکروف کہتے ہیں کہ اگر وہ اپنے ملک واپس جاتے ہیں تو انہیں قید میں ڈال دیا جائے گا۔ 1991ءمیں آزادی کے بعد سے ازبکستان میں اسلام کریموف برسر اقتدار ہیں۔ اسحاق جان انسانی حقوق کے سرگرم رکن ہیں اور2004ءمیں انہیں اپنے ملک سے فرار ہونا پڑا۔

وہ کہتے ہیں کہ ازبکستان میں معیار زندگی بہت حد تک گر گیا ہے، معیشت خراب ہو گئی ہے اور وہاں جمہوری نظام قائم کرنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

کئی ادارے ان کی رائے کی تصدیق کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ امریکہ میں خوش ہیں۔ کیونکہ ان کے خیال میں یہ ملک ان کے لئے محفوظ ہے۔ یہاں جمہوریت ہےاور میں جمہوریت کا حمایتی ہوں ۔ یہاں آپ کام تلاش کر سکتے ہیں،سیکھ سکتے ہیں اور سب کچھ کر سکتے ہیں ۔ اگرمجھے اپنے خیالات ایک جملے میں بیان کرنے کے لیے کہا جائے تو میں کہوں گا کہ مجھے امریکہ پسند ہے۔

سویت دور میں ماسکو سے سب پر حکمرانی کی جاتی تھی مگر سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یہ تارکین وطن ایک بار پھر ایک ہی مشترکہ ملک ، امریکہ، میں رہ رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG