رسائی کے لنکس

سری نگر میں طالب علم کی پولیس فائرنگ میں ہلاکت کے بعد پُر تشدد مظاہرے



سری نگر میں جزوی احتجاجی ہڑتال کے دوران سینکڑوں مرد اور خواتین شہر کے ہائی سکیورٹی علاقے میں واقع اقوامِ متحدہ کے فوجی مبصرین برائے بھارت و پاکستان کے دفاتر کے باہر دھرنے پر بیٹھ گئے۔

وہ مطالبہ کر رہے تھے کہ کشمیر میں تعینات کئی لاکھ مسلم افواج کو واپس بلایا جائے یا پھر اُن کے ہاتھوں مبینہ طورپر سرزد ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کو بند کرانے کے لیے عالمی برادری اپنا مؤثر کردار ادا کرے۔

اِس سے پہلے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اُس مقامی طالب علم محمد عنایت خان کی تجہیز و تکفین میں حصہ لیا جو جمعے کو مسلمان مظاہرین پر پولیس فائرنگ میں شدید طور پر زخمی ہوا تھا اور بعد میں ہسپتال میں دم توڑ بیٹھا۔

دیکھنے والے کہتے ہیں کہ طالبِ علم ایک کوچنگ سینٹر سے باہر آرہا تھا کہ پولیس کی گولی کا شکار ہوگیا۔

پولیس افسران اِس بات سے انکار کر رہے ہیں کہ اُنھوں نے جمعے کو لال چوک کے علاقے میں گولی چلائی تھی، جب کہ اُس کی میت سپردِ خاک کرنے کے لیے مقامی قبرستان کی طرف لے جائی جارہی تھی تو پولیس نے جنازے کے جلوس پر اشک آور گیس چھوڑ کر اُسے منتشر کرنے کی کوشش کی۔

اِس موقع پر جنازے کے جلوس کے پیچھے پیچھے چلنے والی خواتین میں شامل ایک عمر رسیدہ خاتون نے ایک پولیس افسر کا گریبال پکڑا اور اُس سے کہا: ‘کل تم اپنے خدا یا بھگوان کو کیا جواب دو گے؟’

اِس سے پہلے، ایک قریبی چوراہے پر طالبِ علم کا جنازہ پڑھایا جا رہا تھا تو ذرا سے فاصلے پر کھڑی خواتین سینہ کوبی کر رہی تھیں۔ طالبِ علم کی ہلاکت کے خلاف سری نگر کے کئی علاقوں میں مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان دِن بھر جھڑپیں ہوتی رہیں جِن میں چھ پولیس والوں سمیت 20 افراد زخمی ہو گئے۔

کشمیر میں حکمراں کانگریس پارٹی کے صدر اور سابق وفاقی وزیر سیف الدین سوز نے طالب علم کی ہلاکت کی مذمت کی ہے اور اُس کی تحقیقات اعلیٰ سطح پر کرانے کا مطالبہ کیا۔

سری نگر میں حالات بدھ کے روز اُس وقت خراب ہوگئے جب عسکریت پسندوں نے شہر کےمرکزی چوراہے لال چوک پر واقع بھارت کی دفاعی پولیس فورس کی ایک چوکی کو دستی بم کا نشانہ بنانے کے بعد ایک قریبی ہوٹل میں پناہ لی جو طرفین کے درمیان 22گھنٹے تک جاری رہنے والی لڑائی پر منتج ہوئی۔

اِس معرکے میں دونوں عسکریت پسند مارے گئے۔ اِسی دوران جب قریبی بستیوں کے نوجوانوں نے ‘مجاہدو ہم تمہارے ساتھ ہیں’ اور ‘ہم آزادی چاہتے ہیں’ کے نعرے لگاتے ہوئے لال چوک کی طرف بڑھنا شروع کیا تو پولیس نے اُن کے خلاف طاقت کا استعمال کیا۔ یہ سلسلہ ہفتے کو دوسرے دِن بھی جاری رہا ۔ جمعے کو مقامی باشندوں اور تاجروں نے لال چوک کے ایک تباہ شدہ سنیما گھر میں قائم پولیس چوکی کو ہٹانے کے مطالبے کو منوانے کے لیے مظاہرے کیے تو پولیس نے ایک مرتبہ پھر طاقت کا استعمال کیا۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG