رسائی کے لنکس

عورتوں کے حق میں اقدام کو ہمیشہ مزاحمت کا سامنا رہا ہے: عاصمہ جہانگیر


یہ بات انہوں نے حال ہی میں پنجاب میں منظور ہونے والے تحفظ نسواں قانون پر بعض مذہبی حلقوں کی جانب سے تنقید کے بارے میں کہی۔

معروف وکیل اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ پاکستان میں عورتوں کے حقوق پر آج تک جتنی بھی پیش رفت ہوئی ہے اسے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

یہ بات انہوں نے حال ہی میں پنجاب میں منظور ہونے والے تحفظ نسواں قانون پر بعض مذہبی حلقوں کی جانب سے تنقید کے بارے میں کہی۔

ناصرف مذہبی سیاسی جماعتوں بلکہ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی قانون منظور ہونے کے بعد اپنے بیانات میں اسے غیر اسلامی اور غیر آئینی قرار دیا تھا۔

اس قانون میں عورتوں کے خلاف تشدد، انہیں ہراساں کرنے اور ان کا پیچھا کرنے کو جرم قرار دیا گیا ہے جبکہ قانون کے تحت تشدد کرنے والے کو گھر سے دو روز کے لیے باہر بھیجا جا سکتا ہے۔

اگر عورت کو کسی کی جانب سے شدید تشدد کا خطرہ ہو تو عدالت کے حکم پر اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے اسے چی پی ایس ٹریکنگ بریسلیٹ پہنایا جا سکتا ہے۔

اس قانون کو وفاقی شرعی عدالت میں بھی چیلنج کر دیا گیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ پاکستان میں عورتوں کے حق میں جب بھی قدم اٹھایا گیا اس پر بہت شور مچایا گیا۔

’’فیملی لا آرڈیننس بنا تو چیخ و پکار۔ یہاں پر جب عورتیں ٹی وی پر آنے لگیں تو چیخ و پکار، عورتوں کو کہا کہ پارلیمنٹ میں آنے دو تو چیخ و پکار۔ اور جب آ گئیں تو اپنی گھر والیاں بھی لے آئے پارلیمنٹ میں۔ چیخ و پکار تو ایک عادت سی، مجبوری سی بن گئی ہے ان لوگوں کی جو زمانے کے ساتھ چلنا چھوڑ چکے ہیں اور زمانے کو پیچھے لے جانا چاہتے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ عورتوں کی سوچ چلتے پانی کی طرح ہے اور جو بھی اس کے سامنے آئے گا وہ خود کیچڑ کھائے گا، ندی نہیں رکے گی۔

تاہم پاکستان علما کونسل کے سربرہ حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ اسلام عورتوں پر تشدد کی اجازت نہیں دیتا مگر وہ پنجاب میں منظور کیے گئے قانون کی کچھ شقوں سے اتفاق نہیں کرتے۔

’’اس کی کچھ شقوں کی ہم حمایت کرتے ہیں اور کچھ شقوں کو اپنے معاشرے کے خلاف سمجھتے ہیں۔ لیکن ان شقوں کی مخالفت کا قطعاً مطلب یہ نہیں ہے کہ عورتوں پر تشدد جائز ہے۔ بعض شقوں پر ہمارے تحفظات اس لیے ہیں کہ ان پر عملدرآمد سے خاندانی نظام تباہ ہو جائے گا، معاشرے میں مزید بگاڑ پیدا ہو گا۔‘‘

انہوں نے عورتوں کے عالمی دن کے حوالے سے کہا کہ معاشرے میں جہیز کی روایت کو ختم کرنا چاہیئے اور حکومت کو بچیوں کی تعلیم پر توجہ دینی چاہیئے۔

دوسری جانب ماہر تعلیم اور عورتوں کے حقوق کی سرگرم کارکن فرزانہ باری نے کہا کہ اگرچہ عورتوں کو برابری کی سطح پر لانے کے لیے حکومت کو مزید قوانین اور ادارے بنانے کی ضرورت ہے مگر موجودہ قوانین اور پالیسیوں پر مؤثر عملدرآمد سے بھی بہت کچھ بدلا جا سکتا ہے۔

’’جو آپ کہتے ہیں کہ عورتوں کو مواقع ملنے چاہیئیں، جو ان کے حقوق ہیں جو آئینِ پاکستان عورت کو دیتا ہے، ان حقوق (پر عمل) میں اگر ریاست اپنا کردار ادا کرے اور مؤثر طریقے سے عملدرآمد کرے تو میں سمجھتی ہوں کہ عورتوں کے بہت سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔‘‘

عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ پاکستان کی عورتیں بدل گئی ہیں اور خواب دیکھنے لگی ہیں مگر ملک میں ان کو مناسب جگہ دینے کے لیے ابھی بہت کچھ بدلنے کی ضرورت ہے۔

XS
SM
MD
LG