رسائی کے لنکس

امریکی ہائی اسکول کی طالبہ کا جرات مندانہ انکشاف


لوریسا نے ممکنہ امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ نفرت اور تعصب پر تعمیر ایک دیوار کے بغیر بھی دوبارہ عظیم ہوسکتا ہے۔

امریکہ میں غیر قانونی تارکین وطن کی مشکلات نئی نہیں ہیں لیکن جہاں تک ان کے بچوں کے مستقبل کا سوال ہے تو اس حوالے سے غیر قانونی تارکین وطن والدین کے بچے مایوسی اور بے یقینی کا شکار نظر آتے ہیں کیونکہ انھیں کالج یا یونیورسٹی میں حصول تعلیم کے لیے وفاقی طالب علموں کی امداد کا اہل نہیں سمجھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے زیادہ تر غیر قانونی طالب علموں کا تعلیمی سفر ہائی اسکول پر ختم ہو جاتا ہے۔

امریکہ میں غیر قانونی تارکین وطن کے بچوں کا تعلیمی سفر عام بچوں کے مقابلے میں کتنا مختلف ہے اس کا اندازا اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی ریاست ٹیکساس کے ایک ہائی اسکول کی سند یافتہ طالبہ نے اپنے الوداعی خطاب میں بڑی جرات کے ساتھ یہ انکشاف کر ڈالا ہے کہ وہ امریکہ میں رہنے والے ان ایک کروڑ سے زائد تارکین وطن میں سے ایک ہیں،جن کے پاس امریکہ میں رہنے کی قانونی دستاویزات نہیں ہیں۔

لوریسا مارٹینس نے میک کینی بوائڈ ہائی اسکول سے گریجویشن کیا ہے۔ اپنی الوادعی تقریر میں اس نے اپنے ہم جماعتوں کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے تعلیمی سفر کی مشکلات کا ذکر اور امریکہ میں اپنی غیر قانونی حیثیت کا انکشاف کیا۔

لوریسا نے کہا کہ "میں نے آج یہاں آپ کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی زندگی کے غیر متوقع حقائق کو ظاہر کرنےکا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اس سچائی کو اپنے ہم جماعتوں کے سامنے رکھنے کا یہ میرا آخری موقع ہے۔"

لوریسا نے ممکنہ امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ نفرت اور تعصب پر تعمیر ایک دیوار کے بغیر بھی دوبارہ عظیم ہوسکتا ہے۔

لوریسا نے بتایا کہ وہ اپنی ماں اور بہن کے ساتھ میکسیکو سے ٹیکساس میں منتقل ہوئی تھیں۔ ان کی ماں صبح سے رات تک نوکری کرتی تھی اور وہ گھر پر اپنی چھوٹی بہن کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سنبھالتی تھی اور اسکول اس کی پناہ گاہ تھا۔

لوریسا نے کہا کہ اس نے امریکی شہریت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی اور پچھلے سات سالوں سے وہ درخواست پر عمل درآمد کے انتظار میں ہے۔

اپنی زندگی کے مشکل دور کا انکشاف کرنے کے باوجود لوریسا نے اپنی تقریر کا اختتام ایک حوصلہ افزا نوٹ پر کیا جس میں اس نے کہا کہ اپنی کہانی کے اشتراک کے ساتھ میں آپ کو اس بات پر قائل کرنے کی امید رکھتی ہوں کہ جب میں دقیانوسی تصورات کو توڑنے میں کامیاب ہوسکتی ہوں تو آپ یہ کیوں نہیں کرسکتے ہیں۔

لوریسا کی طرح ٹیکساس میں رہنے والی ایک سترہ سالہ طالبہ مائٹے لارا ایبارا نے بھی اس ہفتے کے اوائل میں اپنی ہائی اسکول کی گریجویشن پارٹی کی چند تصاویر کے ساتھ اپنی تعلیمی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ ٹوئٹ کی تھی کہ وہ امریکہ میں ایک غیر قانونی تارکین وطن کی حیثیت رکھتی ہے۔

امریکہ میں ان دو غیر قانونی طالبات کے بیانات نے سوشل میڈیا پر ایک متنازع بحث چھیڑ دی ہے۔ جس میں ایک طرف ان کی مخالفت کرنے والے صارفین کا کہنا ہے کہ کیا غیر قانونی تارکین وطن کا دعویٰ کرنے پر لارا اور لاریسا تعریف کی مستحق ہوسکتی ہیں تو دوسری جانب لوگوں کی اکثریت ان کے دفاع میں سامنے آئی ہے جن کی طرف سے دونوں لڑکیوں کی جرات کو سراہا گیا ہے۔

تاہم لوریسا مارٹینس خوش قسمت ثابت ہوئی ہیں جنھوں نے ایک وظیفے کی مدد سے ییل یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرلیا ہے یہ وظیفہ ایک قومی غیر منافع بخش پروگرام ہے جو ملک کے کم آمدنی والے طالب علموں کو تعلیم اور وظائف فراہم کرتا ہے ۔

ہفنگٹن پوسٹ سے ییل یونیورسٹی کے ایک ترجمان نے کہا کہ کالج میں درخواست دینے والے تمام طالب علم چاہے وہ امریکی شہریت رکھتے ہوں یا بین الاقوامی طالب علم کی حیثیت رکھتے ہوں وہ ضروریات کی بنیاد پر مالی امداد کے اہل سمجھے جاتے ہیں۔

17 امریکی ریاستوں میں یہ طالب علم ریاستی ٹیوشن شرح کے اہل نہیں ہیں اور 100 سے بھی کم کالج یا یونیورسٹیوں کی طرف سے ان طالب علموں کے لیے مالی معاونت کی پیشکش کی جاتی ہے۔

ٹیکساس ان 17 میں سے ایک ریاست ہے جہاں غیر قانونی طالب علموں کے لیے ریاستی ٹیوشن شرح کا اہل بنانے کے لیے قانون سازی کی گئی ہے ٹیکساس کے علاوہ کیلی فورنیا اور نیو میکسیکو میں بھی ان طالب علموں کو تعلیمی قرضے دیے جاتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں ہر سال اندازاً 65 ہزار غیر قانونی تارکین وطن ہائی اسکول سے سند یافتہ ہو کر نکلتے ہیں اور یہ مکمل طور پر قانونی ہے جس کے مطابق امیگریشن حیثیت س قطع نظر امریکہ میں رہنے والے تمام بچوں کو 12 گریڈ تک سرکاری اسکولوں میں تعلیم کی ضمانت دی گئی ہے۔

امریکی امیگریشن کونسل کے اندازے کے مطابق امریکہ میں رہنے کے قانونی دستاویزات نا رکھنے والے طالب علموں میں سے تقریباً 5 سے 10 فیصد کالج تک پہنچتے ہیں کیونکہ ہائی اسکول سے فارغ التحصیل طالب علم فیس کے متحمل نہیں ہوتے ہیں یا پھر کالج یا یونیورسٹی کی طرف سے انھیں داخلے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔

XS
SM
MD
LG