رسائی کے لنکس

’نظر بند کر کے لوٹنا‘


کیا کسی کو ہپنیٹائز یا نظر بند کر کے لوٹا جاسکتا ہے؟ کیا کوئی کسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے اپنے آپ اور اردگرد سے اتنا بے خبر کر سکتا ہے کہ کوئی اسے اپنی انگلیوں پہ نچائے، یہاں تک کہ اسے لوٹ لے اور اسے پتا بھی نہ چلے

پاکستان میں چوری، ڈکیتی اور لوٹ مار کے کئی طریقے استعمال کئے جاتے ہیں اور ان پرانے طریقوں میں نت نئے طریقے بھی متعارف ہوتے رہتے ہیں۔


جدید ٹکنولوجی بھی لٹیروں کو معصوم لوگوں کو لوٹنے اور ٹھگنے کے ڈیجیٹل مواقع فراہم کرتی ہے۔ لیکن، لوگوں کو ان کی مال و دولت سے محروم کرنے کا ایک مبینہ پر اصرار طریقہ بہت پرانا ہے۔۔۔ وہ ہے، ’نظر بند کر کے لوٹنا‘، یعنی کسی کو ہپنیٹائز کر کے لوٹنا۔


ایک خاتون نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کس طرح ایک عورت نے اسے نظر بند کر کے لوٹ لیا۔

خاتون کا کہنا تھا کہ ٹھگ عورت اس خاتون کے گھر آئی اور اس کا سارا قیمتی سامان ٹھگ کے لے گئی؛ اور اسے پتا ہی نہ چلا؛ کیونکہ ٹھگ عورت نے اس خاتون کو نظر بند کر دیا تھا۔ جب خاتون کو ہوش آیا، تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ اور وہ سب کچھ سمیٹ کر جا چکی تھی۔

خاتون سے گفتگو میں یوں محسوس ہوا کہ جیسے ٹھگ عورت کچھ چرا کر یا لوٹ کر نہیں لے گئی، بلکہ خاتون نے خود ہی اپنے گھر کا سارا قیمتی سامان سمیٹ کر اس کے حوالے کر دیا ہو۔
انٹرنیٹ پر بھی ایسی کچھ مثالیں ملتی ہیں جن میں لوگوں نے بتایا ہے کہ کسی نے انھیں ہپنیٹائز کر کے لوٹ لیا۔
کیا کسی کو ہپنیٹائز یا نظر بند کر کے لوٹا جاسکتا ہے؟ کیا کوئی کسی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے اپنے آپ اور ارد گرد سے اتنا بے خبر کر سکتا ہے کہ کوئی اسے اپنی انگلیوں پہ نچائے۔۔ یہاں تک کہ، اسے لوٹ لے اور اسے پتا بھی نہ چلے۔
جواب ہے نہیں! یہ کہنا ہے ماہر نفسیات ڈاکٹر فیصل ممسا کا، جو کراچی کے ساوتھ سٹی ہسپتال میں پریکٹس کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فیصل ممسا کا کہنا تھا کہ وہ خود ہپنیٹائز کرنے کی تربیت رکھتے ہیں۔ لیکن، اس عمل کی افادیت کے قائل نہیں، اور جو ماہرین مریضوں کے علاج کے لئے انھیں ہپنیٹائز کر کہ خواب جیسی کیفیت میں لے بھی جاتے ہیں تو اس کا ایک باقائدہ اور طویل طریقہ ہے جس میں مریض معالج کے ساتھ بھرپور تعاون کرتا ہے اور یہ عمل مریض کی مرضی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کو ہپنیٹائز کرنا ممکن ہوتا ہے جو کسی کے کسی بھی مشورے پر عمل کر لیتے ہیں۔
ڈاکٹر فیصل ممسا کا کہنا تھا کہ لوگ لالچ، خوف یا کسی ٹھگ کی شعبدے بازی میں آ کر اپنی چیزوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جیسے کسی ٹھگ نے اگر کسی کو ایک کرنسی نوٹ کو ہاتھ کی صفائی سے دو کر کے دکھا دیا اور کسی بھولے بھالے لالچی سے کہا کہ اپنا تمام زیور دے میں اسے بھی دگنا کر دوں گا اور اس طرح کی کسی حماقت سے لوگ اپنے مال سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

لیکن، بعد میں اپنی غلطی نہ ماننے کے لئے اور شرمندگی سے بچنے کے لئے ساری بات نظر بندی پہ ڈال دی جاتی ہے۔

XS
SM
MD
LG