رسائی کے لنکس

سوڈان کے عام انتخابات پر بحث


سوڈان کے عام انتخابات میں ایک ہفتے تک ووٹ ڈالے جانے کے بعد اب ووٹوں کی گنتی شروع ہو گئی ہے ۔تا ہم تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ یہ ایسا انتخاب تھا جس میں کسی کی جیت نہیں ہوئی بلکہ سب کی ہار ہوئی ہے۔

واشنگٹن میں اس ہفتے Carnegie Endowment for International Peace میں ماہرین کے پینل نے سوڈان کے حالیہ انتخابات پر تبادلۂ خیال کیا۔ ان تمام ماہرین نے انتخابات پر سخت تنقید کی اور کہا کہ انتخابات کے اس ڈھونگ کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ سوڈان کی تمام سیاسی پارٹیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔

امریکی محکمۂ خارجہ کے سابق اسسٹنٹ سیکرٹری برائے افریقہ ہرمن کوہن نے کہا کہ شمال کی حزبِ اختلاف کی سیاسی پارٹیوں کی طرف سے انتخابات کا بائیکاٹ کیا جانا سخت غلطی تھی۔انھوں نے کہا’’اگر بائیکاٹ نہ کیا جاتا تو دھاندلی ہوتی نظر آتی۔ اگر آپ بائیکاٹ کر دیتے ہیں تو انہیں دھاندلی کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔انتخاب میں شرکت کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے سے کہ دھاندلی کے تمام واقعات کا ریکارڈ رکھا جا رہا ہے، انتخاب جیتنے والے کی فتح مشکوک ہو جاتی۔‘‘

جان پرنڈرگاسٹJohn Prendergast نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے خاتمے کے Enough Project کے بانیوں میں سے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بائیکاٹ سے بھی زیادہ بڑی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے ووٹنگ شروع ہونے سے صرف چند روز پہلے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ وہ کہتے ہیں’’یا تو آپ کو انتخاب لڑنا چاہیئے تھا یا شروع میں ہی علیحدہ ہو جانا چاہیئے تھا کیوں کہ یہ تو معلوم ہو گیا تھا کہ یہ انتخاب محض ڈھونگ ہے ۔ مردم شماری،رجسٹریشن، قومی سلامتی کے قوانین، اجتماع کی آزادی، تقریر کی آزادی، انتخابی حلقوں کی حد بندی میں من مانی، غرض پورے انتخابی عمل سے ظاہر ہو گیا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ سیاسی پارٹیوں نے ابتدا ہی میں نہ الگ ہونے کا اعلان کیا اور نہ انتخاب لڑا۔ وہ آخری لمحے تک انتظار کرتی رہیں۔ اب تو افرا تفری پھیل گئی ہے اور سب کو نقصان ہوا ہے۔‘‘

فرانسیسی محقق، اوراکیڈمک کونسل آف دی ایسوسی ایشن فار دی سٹڈی آف دی مڈل ایسٹ اینڈ افریقہ کے رکن جیرار پرونیئر نے کہا کہ انتخاب میں حصہ نہ لے کر، حزبِِ اختلاف کی پارٹیوں نے یہ ظاہر کیا ہے کہ سوڈان کے مستقبل میں ان کا کوئی رول نہیں ہوگا۔ انہیں ڈر تھا کہ انہیں شکست ہو جائے گی لیکن کامیابی بر سرِ اقتدار نیشنل کانگریس پارٹی یا NCP کو بھی نہیں ملی ہے۔وہ صرف خرطوم میں مراعات یافتہ طبقے کی پارٹی بن کر رہ گئی ہے۔

پرونیئر کو یہ ڈر بھی ہے کہ جب تیل کی دولت سے مالا مال جنوبی سوڈان اگلے برس ہونے والے ریفرینڈم میں آزادی کے لیے ووٹ دے گا یا یکطرفہ طور پر آزادی کا اعلان کردے گا تو کیا ہوگا۔’’خطرہ یہ ہے کہ تیل کے کنوؤں پر فوج کے ذریعے قبضہ کر لیا جائے گا تا کہ نقد رقم ملتی رہے۔ فوج کے ذریعے قبضہ کرنا ممکن ہے اور حکمران پارٹی کے اندر یہ بحث ہوگی کہ کیا کیا جائے۔نتائج سے ڈرنے والے بعض لوگ کہیں گے کہ ایسا نہ کرو، اس میں بہت خطرہ ہے، اور بعض لوگ کہیں گے کہ اگر ہم ایسا نہ کریں گے تو زندہ کیسے رہیں گے، اس لیے کنوؤں پر قبضہ کر لو کیوں کہ ہمیں اپنی زندگی عزیز ہے۔‘‘

پرنڈرگاسٹ نے کہا کہ بین الاقوامی برادری نے شمال اور جنو ب کے درمیان دو عشروں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے سخت کوشش کی تھی اور 2005 میں جامع امن سمجھوتہ ہوا تھا ۔ لیکن اس سمجھوتے پر عمل در آمد پر ، جیسے سرحد کی حد بندی اور تیل کے مسائل پر توجہ نہیں دی گئ۔ انھوں نے کہا کہ اگر جنگ چِھڑ گئی تو جنوبی سوڈان اور بین الاقوامی برادری کو برسوں تک اس کی قیمت ادا کرنی ہو گی۔ ہم اگلے 40برس تک انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اربوں ڈالر کی مدد دیتے رہیں گے۔

پینل کے ارکان نے کہا کہ دارفر میں بہت کم لوگوں نے ووٹ ڈالے کیوں کہ لوگ خوفزدہ تھے یا ووٹرز کے طور پر ان کا کبھی رجسٹریشن ہوا ہی نہیں تھا۔پینل نے انتخاب کی نگرانی کرنے والوں کی کارکردگی پر بھی مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ امریکہ نے بھی سفارتی سطح پر پوری کوشش نہیں کی ہے ۔ انھوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ چین مستقبل میں کسی بڑی تباہی کو روکنے میں موئثر کردار ادا کر سکتا ہے ۔ سوڈان کے تیل کا سب سے بڑا خریدار چین ہے۔

سوڈان کے انتخاب کی نگرانی کرنے والوں میں سابق امریکی صدر جمی کارٹر بھی شامل ہیں۔ انھوں نے بعض مسائل کا اعتراف کیا لیکن کہا کہ وہ اس وقت تک اپنی رائے کا اظہار نہیں کریں گے جب تک ووٹوں کی گنتی مکمل نہیں ہو جاتی ۔ مسٹر کارٹر نے انتخاب کی اہمیت کا دفاع کیا اور کہا کہ یہ جنوبی سوڈان میں ریفرنڈم کے عمل کی جانب ایک قد م ہے ۔ انھوں نے یہ انتباہ بھی کیا ہے کہ اگر شمال اور جنوب کے درمیان سمجھوتہ ختم ہو گیا تو ایک اور جنگ شروع ہو جائے گی۔

XS
SM
MD
LG