رسائی کے لنکس

مذاکرات کا پہلا ہفتہ، کوئی سمجھوتا نہیں ہو پایا


جنوبی سوڈان کے صدر سلوا کیر (دائیں) اور سوڈان کے صدر عمر البشیر ہاتھ ملاتے ہوئے
جنوبی سوڈان کے صدر سلوا کیر (دائیں) اور سوڈان کے صدر عمر البشیر ہاتھ ملاتے ہوئے

مذاکرات کے پہلے ہفتے میں سرحد اور اس سے متعلق تیل اور سیکورٹی کے مسائل پر توجہ دی گئی۔ لیکن اب تک مصالحت کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

سوڈان اور جنوبی سوڈان کے درمیان نئے مذاکرات کا پہلا ہفتہ کسی نئے سمجھوتے کے بغیر ختم ہو گیا ۔ ادیس ابابا سے وائس آف امریکہ کی نامہ نگار مارتھا وینڈر ولف نے اطلاع دی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کی بڑی وجہ سرحدی تنازعات ہیں۔

مذاکرات کے پہلے ہفتے میں سرحد اور اس سے متعلق تیل اور سیکورٹی کے مسائل پر توجہ دی گئی۔ لیکن اب تک مصالحت کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

دونوں ملکوں کو 22 ستمبر کی ڈیڈ لائن تک ان معاملات پر اور دوسرے امور پر سمجھوتے کرنا ہیں ، ورنہ ان کے خلاف پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں ۔اس ہفتے ایتھیوپیا کے دارالحکومت میں مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے تھے ۔ اس سے قبل گذشتہ مہینے شمال کے راستے جنوبی سوڈان کے تیل کی ترسیل کے بارے میں سمجھوتہ ہوا تھا۔

مترف صدیق سوڈان کے وفد کے رکن ہیں اور توقع ہے کہ وہ جنوبی سوڈان میں سوڈان کے سفیر مقرر کر دیے جائیں گے ۔ وہ کہتے ہیں کہ گذشتہ مہینوں میں مذاکرات کا ماحول بہت بہتر ہو گیا ہے ۔

اُن کے الفاظ میں ، ’میرے خیال میں موڈ بہت تبدیل ہو گیا ہے ۔ ابھی تک معاملات سو فیصد تک تو ٹھیک نہیں ہوئے ہیں، لیکن دونوں فریقوں کے درمیان دوریاں کم ہوئی ہیں ۔ تین، چار یا پانچ مہینے پہلے جو حالات تھے، اب ویسے نہیں ہیں، کیوں کہ ہمیں احساس ہوا ہے کہ اب جھگڑوں کو طول دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اور ہمیں کامیابی سے معاملات طے کرنے چاہئیں‘۔

مائیکل ماکائی جنوبی سوڈان کے پارلیمانی امور کے وزیر اور سرحدی امور کی کمیٹی کی چیئر مین ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر دونوں ملک سرحد کے بارے میں کوئی سمجھوتہ کر لیں، تو دوسرے مسائل تیزی سے حل ہو سکتے ہیں۔ اُن کےبقول، تقریباً مکمل اتفاق ہو چکا ہے اور یہ معاملہ آخری مرحلے میں ہے ۔ اقتصادی مسائل بھی تقریباً طے پا چکے ہیں ۔ قومیت اور اسے متعلق دوسرے مسائل پر ابتدائی سمجھوتہ ہو چکا تھا، اور اسے آخری شکل دی جانی ہے تا کہ سربراہوں کی میٹنگ تک اس پر دستخط ہو جائیں ۔

مکائی جس سربراہ کانفرنس کی بات کر رہے ہیں وہ جنوبی سوڈان کےصدر سلوا کیر اور سوڈان کے صدر عمر البشیر کی میٹنگ ہے جو سمجھوتوں کو باقاعدہ شکل دینے کی ڈیڈ لائن سے ایک ہفتہ قبل ہونی ہے ۔

تا ہم ، ان مسائل پر سمجھوتہ مشکل ثابت ہو رہا ہے ۔ اقوامِ متحدہ میں امریکہ کی نمائندہ، سوزن رائس نے جمعرات کے روز کہا کہ وہ محسوس کرتی ہیں کہ مذاکرات میں عجلت کا فقدان ہے اور اس کے نتیجے میں لڑائی چھڑ سکتی ہے ۔

جنوبی سوڈان کے مکائی کہتے ہیں کہ جو بھی تاخیر ہو رہی ہے وہ سوڈان اور افریقی یونین کے اعلیٰ سطح کے Implementation Panel کی وجہ سے ہو رہی ہے ۔اُن کے الفاظ میں، یہ کہنا صحیح نہیں تھا کہ دونوں فریقوں کو سمجھوتہ کرنے کی جلدی نہیں ہے کیوں کہ اب جو مسائل باقی رہ گئے ہیں، ان کا تعلق ہم سے نہیں ہے ۔ یہ وہ معاملات ہے جن کا کچھ تعلق AU-HIP سے اور بقیہ حصے کا تعلق حکومتِ سوڈان سے ہے ۔ جہاں تک جنوبی سوڈان کا تعلق ہے، ہماری طرف سے کوئی تاخیر نہیں ہو رہی ہے، اور ہم یہاں تمام سوالات طے کرنے اور سمجھوتہ کرنے کے لیے آئے ہیں۔

جنوبی سوڈان نے سوڈان سےسنہ 2005 کے سمجھوتے کے تحت جس کے نتیجے میں سوڈان کی طویل خانہ جنگی ختم ہوئی، 2011ء میں سوڈان سے آزادی حاصل کی ۔ اس سال کے شروع میں، تیل کے سوال پر اور Abyei کے متنازعہ علاقے پر سرحد کے ساتھ ساتھ جھڑپیں شروع ہو گئیں اور یہ تشویش پیدا ہو گئی کہ ان ملکوں کے درمیان جنگ پھر شروع ہو سکتی ہے ۔

ادیس ابابا یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر دربیل آصفہ کہتے ہیں کہ دونوں سوڈانوں کے درمیان فوجی جھڑپوں کے علاقے پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتےہیں ۔

اُن کا کہنا ہے کہ قرنِ افریقہ کے علاقے میں بہت سے مسائل ہیں جو بڑی حد تک ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں بہت سے نسلی گروپ ہیں جو ملک کے مختلف علاقوں میں رہتے ہیں اور مختلف حکومتوں کی وابستگیاں اور مفادات الگ الگ ہیں۔ غربت سے متعلق اور دوسرے بہت سے مسائل بھی موجود ہیں۔ اس علاقے پر ان تمام مسائل کے اثرات پڑیں گے ۔

اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے دونوں سوڈانوں پر بار بار زور دیا ہے کہ وہ اپنے اختلافات مذاکرات کی میز پر طے کر لیں۔
XS
SM
MD
LG