رسائی کے لنکس

امریکہ سوڈان سے متعلق مضبوط پالیسی اختیار کرے، تجزیہ کار


امریکہ سوڈان سے متعلق مضبوط پالیسی اختیار کرے، تجزیہ کار
امریکہ سوڈان سے متعلق مضبوط پالیسی اختیار کرے، تجزیہ کار

سوڈان اور جنوبی سوڈان کے درمیان بہت سے مسائل پر مذاکرات معطل ہیں۔ سرگرم کارکن اور تجزیہ کار، امریکی حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ زیادہ مضبوط پالیسی اختیار کرے۔ جولائی میں جنوبی سوڈان کی تخلیق میں امریکی حکومت نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، لیکن اس پر تنقید کی جاتی رہی ہے کہ بعد میں اس نے جنوبی سوڈان کی مدد کے لیے کافی اقدامات نہیں کیے ہیں۔

جنوبی سوڈان میں جو خشکی سے گھرا ہوا ملک ہے، اور جس کا تیل سوڈان کی پائپ لائنوں اور تنصیبات سے ہو کر گزرتا ہے، پیسے کی ادائیگی کے تنازعات کی وجہ سے تیل کی پیداوار بند ہے۔
سوڈان کی حکومت نے انتباہ کیا ہے کہ وہ سات لاکھ افراد سے جنہیں وہ جنوبی سوڈان کے باشندے سمجھتی ہے، شہریت کے حقوق واپس لے لے گی۔ سوڈان اور جنوبی سوڈان کے وسیع علاقوں میں سرحدوں کی حد بندی کا کام ہونا باقی ہے۔

Abyei کے متنازع علاقے کی حیثیت کا تعین کرنے کے لیے جو ریفرینڈم ہونا تھا وہ غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے ۔ تاہم، امریکہ میں رہنے والے بہت سے سرگرم کارکنوں اور تجزیہ کاروں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ تشدد ہے جو سرحد کے دونوں طرف جاری ہے۔ اس تشدد میں مختلف نسلوں کی ملیشیائیں، سکیورٹی فورسز اور سابق باغی ملوث ہیں۔

ریپبلیکن کانگریس مین فرینک وولف نے حال ہی میں ایک خط لکھا جس میں انھوں نے صدر براک اوباما کی توجہ ایک وڈیو پر دلائی جس میں سوڈان کی سکیورٹی فورسز کی طرف سے نوبا کے پہاڑوں میں رہنے والے لوگوں پر کیے جانے مبینہ مظالم کو نمایاں کیا گیا ہے۔ سوڈان کی فوج نے بلیو نائیل کے علاقے میں مشتبہ باغیوں اور ان کے ہمدردوں پر بھی حملے کیے ہیں۔

سوڈانی آرٹسٹ اور سرگرم کارکن الشافئی محمد نے گذشتہ سال وائٹ ہاؤس کے باہر دو دن کے لیے بھوک ہڑتال کی تھی تاکہ امریکی عہدے داروں کو صورتِ حال کے بارے میں خبردار کر سکیں۔ امریکی حکومت کے ردِ عمل پر انہیں مایوسی ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں’’وہ اب کچھ نہیں کر رہے ہیں اور لوگوں کو مصائب برداشت کرنے پڑ رہے ہیں۔ وہاں لوگ مر رہے ہیں اور میری سمجھ میں نہیں آتا کہ انہیں کس بات کا انتظار ہے۔ میں سنتا تو بہت کچھ ہوں، لیکن میں دیکھتا یہ ہوں کہ کچھ بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔ ‘‘

اسمتھ کالج میں سوڈان کے ماہر ایرک ریوس کہتے ہیں کہ امریکہ کو جنوبی سوڈان کی فوج کو مضبوط بنانا چاہیئے تاکہ وہ داخلی اور سرحد کے پار ہونے والے تشدد سے نمٹ سکے۔ ’’اگر ہمیں سکیورٹی کا بندوبست کرنا ہے، سرحدوں کو محفوظ بنانا ہے، اگر ہمیں ان شورش زدہ علاقوں میں سکیورٹی فراہم کرنی ہے جہاں ایک طویل عرصے سے نسلی کشیدگیاں موجود ہیں، تو ہمیں ذرائع آمد و رفت اور مواصلات کی گنجائش کو بہتر بنانا ہوگا۔ اوباما انتظامیہ نے ان چیزوں کو ترجیح نہیں دی ہے ۔‘‘

فورڈہم یونیورسٹی میں سوڈان کے امور کے ماہر، امیر ادریس کہتے ہیں کہ امریکی سفارتکاروں نے کئی عشروں کے جھگڑے کے بعد، جنوبی سوڈان کو ایک ملک بنانے کے لیے بہت وقت صرف کیا ہے ۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہو گی اگر آزادی کے بعد کا مرحلہ اتنی جلدی ختم ہو جائے ۔’’مجھے ایسا لگتا ہے کہ اگر ان مسائل کے کوئی حل نہ ملے، تو جنوبی سوڈان کامیابی سے اقتصادی ترقی کا پروگرام شروع نہیں کر سکے گا، اور اس کے ساتھ ہی، اس قسم کے تنازعات جنوبی سوڈان میں پھیل سکتے ہیں اور جنوبی سوڈان کو غیر مستحکم کر سکتے ہیں۔ اس طرح مملکت کی تعمیر بہت زیادہ پیچیدہ عمل بن سکتا ہے۔‘‘

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ موجودہ غیر یقینی حالات میں، دونوں حکومتیں اندرونی اختلاف ِ رائے کو کچل رہی ہیں۔ جنوب میں صحافیوں اور انسانی حقوق کا پرچار کرنے والوں کو اپنا کام نہیں کرنے دیا جا رہا ہے، جب کہ شمال میں احتجاج کرنے والے سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

حالیہ بیانات میں، امریکی عہدے داروں نے دونوں ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ تیل کی راہداری کی فیس کے تنازعے کا حل تلاش کرنے کی کوششیں تیز کر دیں۔ انھوں نے سوڈان کی حکومت سے بھی کہا ہے کہ وہ جنوبی کوردوفان اور بلیو نائل کی ریاستوں میں لڑائی کے علاقوں میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رسائی کی سہولت فراہم کریں کیوں کہ وہاں قحط کا خطرہ موجود ہے۔

صدر اوباما نے 2013ء کا جو مجوزہ بجٹ کانگریس کو بھیجا ہے ، اس میں سوڈان کے لیے قرضے کی منسوخی، اور جنوبی سوڈان کی مدد کے لیے بھاری رقوم شامل ہیں، اگر یہ دونوں ملک داخلی طور پر اور ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات میں پیش رفت کریں۔

XS
SM
MD
LG