رسائی کے لنکس

شام: زور پکڑتے تنازع پر بڑھتی تشویش، جنگ بندی کا امکان کم


فائل
فائل

امریکہ، روس اور مشرق وسطیٰ کے چوٹی کے سفارت کار ہفتے کو سوٹزرلینڈ کے شہر لوزیان میں مذاکرات کریں گے، جس کا مقصد شام میں ناکام جنگ بندی پر بات کرنا ہے، جس کے علاوہ اتوار کو لندن میں ایک ملاقات ہوگی۔

امریکہ کی جانب روس کے ساتھ باہمی مذاکرات کو معطل کیے جانے کے دو سے کم ہفتوں کے اندر اندر، نئی کوششیں ہو رہی ہیں جن میں دونوں فریق نے ایک دوسرے پر الزامات کا تبادلہ کیا۔ روسی اہل کاروں نے کہا ہے کہ اُنھیں مثبت نتائج کی توقع ہے۔

تاہم، حلب کے محصور شہر میں لڑائی جاری ہے، ایسے مین تجزیہ کار کسی پائیدار جنگ بندی کے بارے میں تذبذب کا شکار ہیں۔

ہفت روزہ ’یزندینلی جرنل‘ کے معاون ایڈیٹر، الیگزینڈر گولٹس نے کہا ہے کہ ’’اور، اسد کی تھکی ہوئی افواج کی مدد کے لیے روس اپنے فضائی حملے تیز کر رہا ہے، جو کہ حلب پر قبضے کی آخری کوشش ہے‘‘۔

رسالے کے مطابق، ’’اب یہ بات بالکل واضح ہے کہ روس کا مقصد داعش یا جہبت النصرہ کے دہشت گردوں سے لڑنا نہیں ہے۔ روسی ہدف اسد کی مدد کرنا، اسد کی حفاظت کرنا ہے۔ اور یہی مغرب اور روس کے درمیان تضاد کا اہم نکتہ ہے‘‘۔

متعدد لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ سب سے پہلے روس حلب پر قبضے کے لیے شامی صدر بشارالاسد کی مدد کا خواہاں ہے، تاکہ مذاکرات میں اُن کو مضبوط بنیاد فراہم ہو۔

تاہم، روس نے شدت پسندوں کو نشانہ بنانے پر اتحادی افواج کو خبردار کیا ہے کہ وہ دوری اختیار کریں اور لڑاکا طیاروں کو مار گرانے کی دھمکی دے رکھی ہے، جو روسی یا شامی فواج کے بہت ہی قریب سے گزریں گے۔

ایسے میں جب جنگ بندی کا خیرمقدم کیا جائے گا، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شدید تشویش اس بات پر ہے کہ شام میں شدت اختیار کرتے ہوئے تنازع کو کس طرح سے روکا جائے۔

گولٹس نے کہا ہے ’’تین ہفتے قبل ہم نے روس اور امریکہ کے مابین فوجی تعاون کے امکان کی بات کی تھی۔ اب یہ تمام امکانات معدوم ہوچکے ہیں۔ حقیقت پسندانہ اصل ہدف یہ ہے کہ شام میں امریکہ اور روس کے درمیان براہِ راست فوجی محاذ آرائی کو کس طرح روکا جائے‘‘۔

وائٹ ہاؤس ترجمان نے شام میں روس کے ساتھ کسی امریکی فوجی تعاون کے امکان کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔ امریکی اہل کاروں نے کہا ہے کہ اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ شام میں ہمارے اہداف روس کے ساتھ موافق نہیں رہے، جس رائے کی کچھ تجزیہ کار حمایت نہیں کرتے۔

XS
SM
MD
LG