رسائی کے لنکس

شام: اقتصادی دشواریوں کے عام آدمی پر اثرات


شام: اقتصادی دشواریوں کے عام آدمی پر اثرات
شام: اقتصادی دشواریوں کے عام آدمی پر اثرات

شام کی حکومت کی طرف سے حکومت کے مخالف احتجاجیوں پر جو ظلم ڈھایا جا رہا ہے اس کے علاوہ شام کے لوگوں کو ملک کی تیزی سی بگڑتی ہوئی اقتصادی حالت کے اثرات کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سرگرم کارکن اور انسانی بھلائی کا کام کرنے والے گروپس حمص اور حما کے تباہی سے دوچار شہروں میں لوگوں کو مدد پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان شہروں میں بنیادی ضرورت کی اشیاء جیسے کھانا، پینے کے پانی اور دواؤں کی سخت قلت ہے۔

لیکن اُن علاقوں میں بھی جو اب تک شدید لڑائی سے بچے رہے ہیں، اقتصادی حالات روز بروز بڑی تیزی سے خراب ہو رہے ہیں۔ ذکریا دابا نے شام چھوڑ کر قاہرہ میں پناہ لی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے آبائی شہر حلب میں ان کے جو رشتے دار رہتے ہیں ان کے لیے جینا دوبھر ہو گیا ہے۔

’’روزگار کی حالت خراب ہے، گھر گرم رکھنے کے لیے ایندھن میسر نہیں اور کھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت ہے۔ اقتصادی حالت روز بروز خراب ہو رہی ہے، لیکن حکمرانوں کو کوئی فکر نہیں‘‘۔

پورے شام میں بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ روٹی کی قیمت کچھ عرصے کے لیے دگنی ہو گئی تھی اور کھانے پینے کی دوسری چیزوں کی قیمتیں حکومت کے خلاف تحریک شروع ہونے سے پہلے کے مقابلے میں ڈیڑھ گنا ہو گئی ہیں۔

اس کے ساتھ ہی شام کی کرنسی کی قدر بہت تیزی سے نیچے آ گئی ہے جب کہ بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے بنیادی اقتصادی لین دین جیسے ’اے ٹی ایم‘ اور کریڈٹ کارڈ کے استعمال میں خلل پڑا ہے۔

بین الاقوامی برادری میں کچھ لوگ اور زیادہ سخت پابندیوں پر غور کر رہے ہیں، لیکن لندن میں قائم چیتم ہاؤس کے ندیم شہدیدی کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ پابندیوں سے کام نہ چلے۔

’’پابندیوں پرعمل در آمد کرنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے۔ ہمسایہ ممالک پابندیوں سے بچنے کے لیے کوئی نہ کوئی راہ نکال لیتے ہیں اور کام چلتا رہتا ہے‘‘۔

شام کے دورے پر آئے ہوئے باہر کے لوگ بھی پابندیوں کے اثرات سے بچنے کے طریقے معلوم کر لیتے ہیں۔ غیر ملکی کرنسی بلیک مارکیٹ میں مل جاتی ہے اور اس کے لیے لبنان کے بنکوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر بڑے پیمانے پر پابندیاں لگائی گئیں تو شام کی حکومت کے لیے ان کا توڑ کرنا مشکل نہیں ہو گا۔

اس قسم کے ہیر پھیر سے دمشق میں رہنےوالے بعض لوگوں کو جن کے حکومت میں معمولی سے بھی تعلقات ہیں، مدد ملی ہے۔ ایک شہری نے جس نے کہا کہ اس کا نام نہ بتایا جائے، پیر کے روز کہا کہ حالات ابھی قابو میں ہیں اور اسے کھانے پینے کی چیزیں اور پیٹرول مل رہا ہے۔

اس نے کہا کہ کبھی کبھی بجلی چلی جاتی ہے لیکن اس نے اس کا الزام باغیوں پر لگایا جو دارالحکومت کو بجلی فراہم کرنے والی لائن کاٹ دیتے ہیں۔

شام کی حکومت نے بھی بجلی کی فراہمی منقطع کرنے کا الزام مسلح انتہا پسندوں پر عائد کیا ہے۔ دوسری طرف حزبِ اختلاف نے حکومت کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔ دونوں دعوؤں کی تصدیق کرنا مشکل ہے۔

یہ تعین کرنا بھی مشکل ہے کہ مستقبل قریب میں اقتصادی مشکلات کے اثرات کیا ہوں گے۔ لیکن چیتم ہاؤس کے تجزیہ کار ندیم کہتے ہیں کہ ایک بات بالکل واضح ہے۔ جب بنیادی سہولتوں کے ڈھانچے کو نقصان پہنچتا ہے، تو حزبِ اختلاف سمیت ہر کوئی متاثر ہوتا ہے۔

’’ہمیں مستقبل میں عبوری دور کے بارے میں سوچنا چاہیئے۔ آج کل آپ جس چیز کو بھی نقصان پہنچائیں گے بعد میں اس کی مرمت کرنا پڑے گی۔ لہٰذا آپ در اصل خود کو نقصان پہنچا رہےہیں کیوں کہ ایک نہ ایک دن تو اس حکومت کا خاتمہ ہونا ہی ہے‘‘۔

ندیم شہدیدی کہتے ہیں کہ حکومت اگر ختم ہوئی تو اس میں بالآخر کتنا وقت لگے گا، یہ ایک دوسرا مسئلہ ہے۔ جتنے طویل عرصے تک یہ صورتِ حال جاری رہتی ہے معیشت کی حالت اتنی ہی زیادہ خراب ہوگی اور تشدد میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوگا۔

XS
SM
MD
LG