رسائی کے لنکس

شام: حکومت نے سیاسی جماعتوں کے قیام کی اجازت دے دی


شام: حکومت نے سیاسی جماعتوں کے قیام کی اجازت دے دی
شام: حکومت نے سیاسی جماعتوں کے قیام کی اجازت دے دی

شام کی حکومت نے ایک نئے قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت ملک میں نئی سیاسی جماعتوں کے قیام کی راہ میں حائل قانونی رکاوٹ دور ہوگئی ہے۔

مذکورہ قانون کی منظوری سے حزبِ مخالف کی تنظیموں پر 1963ء سے عائد اس پابندی کا خاتمہ ہوگیا ہے جو حکمران جماعت بعث پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد لگائی گئی تھی۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی 'صنعاء' کی جانب سے پیر کو جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیا قانون ملک میں جاری سیاسی اصلاحات کے پروگرام کا حصہ ہے ۔ تاہم اس قانون میں شرط عائد کی گئی ہے سیاسی جماعتوں کا قیام مذہب، قبائل یا علاقائی بنیادوں پر نہیں کیا جاسکتا۔

قانون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نئی جماعتیں کسی غیر ملکی گروپ یا تنظیم کی شاخ کے طور پر قائم نہیں کی جائیں گی اور انہیں ہر قسم کے تشدد کا مخالف بھی ہونا چاہیے۔

واضح رہے کہ صدر بشارالاسد کے مطلق العنان اقتدار کے خلاف جاری احتجاجی تحریک کے شرکاء کی جانب سے حکمران جماعت سے حکومت میں دیگر سیاسی جماعتوں کو شامل کرنے کا مطالبہ بھی کیا جارہا تھا۔

اس سے قبل اتوار کو صدر الاسد نے دمشق سے تعلق رکھنے والے پولیس کے سابق بریگیڈیئر جنرل سامر الشیخ کو تیل کی دولت سے مالامال مشرقی صوبہ دیرالزور کا سربراہ نامزد کیا تھا۔ صوبے میں دو روز قبل صدر الاسد کے اقتدار کے خلاف اب تک کے سب سے بڑے مظاہرے منعقد ہوئے تھے۔

سامر الشیخ صوبہ کے سابق سربراہ حسین آرنوس کی جگہ سنبھالیں گے جن کا تبادلہ دمشق کے مغرب میں واقع ایک چھوٹے صوبہ قنیطرہ کردیا گیا ہے۔

حزبِ مخالف کاکہنا ہے کہ دیر الزور میں جمعہ کو ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں میں لگ بھگ پانچ لاکھ افراد نے شرکت کی تھی۔ شام کا یہ سرحدی قبائلی صوبہ عراق کے سنی اکثریتی علاقوں سے ملحق ہے۔

اس سے قبل گزشتہ ہفتے شام کی فوج نے صوبے کے مشرقی کنارے پر واقع قصبہ البو کمال کا اس وقت محاصرہ کرلیا تھا جب وہاں چار مظاہرین کی ہلاکت کے بعد 30 سرکاری فوجیوں نے حکومتی احکامات ماننے سے انکار کردیا تھا۔

ادھر فرانسیسی خبر رساں ایجنسی نے سیاسی کارکنان کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ شامی افواج نے اتوار کو وسطی شہر حمص کے مزید کئی علاقوں کا کنٹرول حاصل کرتے ہوئے شہر کے نواحی علاقوں دورالفخورا اور النزہیان میں مزید فوجی دستے تعینات کردیے ہیں۔

واضح رہے کہ حمص حکومت مخالف تحریک اور اس کے خلاف کی جانے والی سرکاری کارروائی کا مرکز رہا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ شامی سکیورٹی افواج مظاہرین کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے دوران اب تک کم از کم 1600 شہریوں کو قتل کرچکی ہیں۔ تاہم حکومت بیشتر ہلاکتوں کا الزام دہشت گردوں اور اسلام پسندوں پر عائد کرتی ہے جو اس کے بقول سینکڑوں سکیورٹی اہلکاروں کو بھی ہلاک کرچکے ہیں۔

ان دعوؤں کی آزاد ذرائع سے تصدیق مشکل ہے کیونکہ شام کی حکومت نے اکثر غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی آزادانہ نقل وحرکت اور رپورٹنگ پر قدغن لگا رکھی ہے۔

XS
SM
MD
LG