رسائی کے لنکس

شام کانفرنس: فریقین براہِ راست مذاکرات پر آمادہ


جنیوا میں جمعے کی شام پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جناب براہیمی نے کہا کہ فریقین نے ہفتے کو ایک میز پر مل بیٹھنے پہ اتفاق کرلیا ہے۔

شام کے لیے اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی لخدار براہیمی نے کہا ہے کہ شام کی حکومت اور حزبِ اختلاف کے نمائندے بالآخر براہِ راست مذاکرات پر آمادہ ہوگئے ہیں اور ہفتے کو فریقین کے درمیان پہلی بار براہِ راست بات چیت ہوگی۔

مسلسل دو روز تک فریقین کے ساتھ علیحدہ علیحدہ بات چیت کرنے کے بعد سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں جمعے کی شام پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جناب براہیمی نے کہا کہ فریقین نے ہفتے کو ایک میز پر مل بیٹھنے پہ اتفاق کرلیا ہے۔

الجزائری نژاد براہیمی نے شامی حکومت اور حزبِ اختلاف کے نمائندوں کے ساتھ اپنی بات چیت کو "حوصلہ افزا" قرار دیا۔

جناب براہیمی کے اس اعلان سے سفارتی حلقوں کو خوشگوار حیرت ہوئی ہے کیوں کہ اس سے قبل جمعے کو فریقین نے کانفرنس کے بائیکاٹ کی دھمکیاں دی تھیں جن کے بعد شام کے بحران کے حل کی حالیہ کوششوں کے ناکامی سے دوچار ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔

جنیوا میں موجود شام کے وزیرِ خارجہ ولید المعلم نے خبردار کیا تھا کہ اگر ہفتے تک سنجیدہ مذاکرات کا آغاز نہ ہوا تو ان کا وفد دمشق واپس لوٹ جائے گا۔

دوسری جانب شامی حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے دھمکی دی تھی کہ اگر حکومتی وفد نے 'جنیوا1' کے عنوان سے ہونے والی کانفرنس کے اعلامیے کو بات چیت کی بنیاد تسلیم نہ کیا تو وہ ان سے براہِ راست مذاکرات نہیں کریں گے۔

اٹھارہ ماہ قبل بین الاقوامی کوششوں سے جنیوا ہی میں ہونے والی اس بین الاقوامی کانفرنس کے اعلامیے میں شام کے بحران کے فریقین سے ملک میں ایک عبوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

شامی حزبِ اختلاف اور اس کے حامی ممالک – بشمول امریکہ او ر دیگر مغربی طاقتیں - اس اعلامیے کی یہ تشریح کرتے ہیں کہ شام کے صدر بشار الاسد کی عبوری حکومت میں کوئی جگہ نہیں ہوگی اور انہیں اپنا عہدہ ہر صورت چھوڑنا ہوگا۔

صدر اسد کی حکومت اور ان کے اتحادی ممالک روس اور ایران مغربی ملکوں کی اس تشریح کو تسلیم نہیں کرتے۔ فریقین کا یہی اختلاف بدھ سے شروع ہونے والی 'جنیوا2' کانفرنس میں شامی بحران کے حل کے لیے کی جانے والی کوششوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

جمعے کی شام اپنی پریس کانفرنس میں لخدار براہیمی نے تسلیم کیا کہ 'جنیوا1' کے اعلامیے کی تشریح پر فریقین کے درمیان اختلافات موجود ہیں۔لیکن ان کے بقول طرفین تسلیم کرتے ہیں کہ بات چیت کا حالیہ عمل اعلامیے کی روشنی ہی میں آگے بڑھایا جارہا ہے۔

جناب براہیمی نے صحافیوں کو بتایا کہ براہِ راست بات چیت کے دوران فریقین لڑائی سے متاثرہ علاقوں تک امدادی اداروں کو زیادہ رسائی دینے سمیت دیگر معاملات پر بھی گفتگو کریں گے۔ لیکن ان کے بقول گزشتہ ساڑھے تین سال سے جاری سیاسی بحران اور خانہ جنگی کا خاتمہ ہی مذاکرات کا مرکزی موضوع ہوگا۔

عالمی ایلچی نے شام کے بحران کے دونوں فریقوں کی پشت پناہی کرنے والی ممالک سے بھی اپیل کی کہ وہ ہفتے کو ہونے والے مذاکرات کی حمایت کریں۔

جناب براہیمی نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ مذاکرات کا حالیہ سلسلہ آئندہ ہفتے تک جاری رہ سکتا ہے جس کےبعد اس میں وقفہ آئے گا تاکہ گفتگو میں شریک وفود اپنی اپنی قیادت سے مشاورت کرسکیں۔
XS
SM
MD
LG