رسائی کے لنکس

شام کی سرکاری فوجیں ترک سرحد سے 25 کلومیٹر دور


سرکاری افواج حلب کے شمالی علاقے کے دیہات میں پہنچ چکی ہیں، جہاں یہ کثیر فریقی تنازع زور پکڑتا جا رہا ہے، جہاں مغربی حمایت والی فری سیریئن آرمی میلشیا او ر اُن کے اتحادی، اسلامی بریگیڈ، شام میں القاعدہ سے منسلک دھڑے، کُرد اور داعش کا جہادی گروپ سب ہی ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ چکے ہیں

اگست 2013ء سے اب تک پہلی بار شامی صدر بشار الاسد کی وفادار فوجیں شمالی شام میں ترک سرحد سے 25 کلومیٹر کے علاقے میں پیش قدمی کر چکی ہیں۔ سرگرم کارکن اور باغی کمانڈروں کا کہنا ہے کہ روسی پشت پناہی میں، وہ اپنی کارروائی میں شدت لاتے رہے ہیں، جن کے باعث معتدل باغی فوجیں بکھر رہی ہیں اور مایوسی کا شکار ہیں۔

ترک عہدے دار اس بات کا انتباہ دے رہے ہیں کہ دن رات جاری روسی فضائی حملوں اور شدید لڑائی کے نتیجے میں بے دخل ہو کر 600000 شامی سولین آبادی ترکی کی سرحد پر جمع ہوجائے گی۔ تاہم، اُنھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ لوگ سرحد پر شامی علاقے میں ہی رہیں گے۔

معاون وزیر اعظم، نعمان کرتلمس کے بقول، ’’ہمارا مقصد یہ ہے کہ یہ کوشش کی جائے کہ جہاں تک ممکن ہو مہاجرین کی یہ کھیپ ترکی کی سرحد سے دور رہے، جنھیں ضروری سہولتیں میسر ہوں‘‘۔

کابینہ کے اجلاس کے بعد، اُنھوں نے بتایا کہ ’’اس صورت حال کے نتیجے میں، 200000 افراد گھر بار چھوڑ چکے ہیں، جن میں سے 65000 نے ترکی کا رُخ اختیار کیا ہے، جب کہ 135000 اندرونِ شام بے دخل ہوئے ہیں‘‘۔

شامی عرب ہلالِ احمر سے وابستہ اہل کار، زکریہ ابراہیم نے پیر کے روز وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کم از کم 25000 مہاجرین ترک سرحد پر ’انوپنار‘ نامی چوکی کے گرد جمع ہیں۔

سرکاری افواج حلب کے شمالی علاقے کے دیہات میں پہنچ چکی ہیں، جہاں کثیر فریقی تنازع زور پکڑتا جا رہا ہے، جہاں مغربی حمایت والی فری سیریئن آرمی میلشیا او ر اُن کے اتحادی، اسلامی بریگیڈ، شام میں القاعدہ سے منسلک دھڑے، کُرد اور داعش کا جہادی گروپ سب ہی ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ چکے ہیں۔

شامی آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس کے مطابق، شمالی حلب کے دیہاتی علاقے میں دو سنی عرب دیہات، دیعر جمال اور مرع ناز نے کرد پیپلز پراٹیکشن کے دستے، جنھیں ’وائی پی جیُ کہا جاتا ہے، سے کہا ہے کہ وہ مہلک روسی فضائی حملوں سے بچیں۔

باغی کمانڈروں نے کہا ہے کہ ’وائی پی جی‘ کے خطے پر بمباری نہیں کی جا رہی، جس سے دمشق اور شامی کرد رہنماؤں کے گٹھ جوڑ کا پتا چلتا ہے، جس دعوے کو ’وائی پی جی‘ مسترد کرتا ہے۔

تاہم، حکمت عملی کے حامل ایک قریبی مناج کے اہم ہوائی اڈے کے مستقبل کے بارے میں خدشات باقی ہیں۔

XS
SM
MD
LG