رسائی کے لنکس

شام میں صدارتی انتخابات، اپوزیشن کا بائیکاٹ


دوسری جانب، شام میں حزب ِمخالف کی جماعتوں کی جانب سے صدارتی انتخابات کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ یہ انتخابات درحقیقت قوم کے ساتھ ایک مذاق ہیں

شام میں منگل کے روز صدارتی انتخابات کے لیے ووٹنگ ہوئی جس کا مقصد بظاہر شام کے صدر بشار الاسد کے اقتدار کو مزید طول دینا ہے۔

سیاسی تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ یہ صدارتی انتخابات شام کے صدر بشار الاسد کو تیسری مرتبہ سات سال کے لیے صدر منتخب کرانے کا ایک ڈھونگ ہے۔

دوسری جانب، شام میں حزب ِمخالف کی جماعتوں کی جانب سے صدارتی انتخابات کی مذمت کی گئی ہے، اور کہا گیا کہ یہ انتخابات درحقیقت قوم کے ساتھ ایک مذاق ہیں، جبکہ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ باغیوں کے زیر ِقبضہ علاقوں میں ووٹنگ نہیں ہوگی۔

شام کے سرکاری ٹی وی پر ووٹرز کو تاکید کی جاتی رہی کہ وہ اپنے گھروں سے باہر نکلیں اور استصواب رائے کے عمل میں حصہ لیں۔ سرکاری ٹیلیوژن پر ایسی فوٹیج بھی دکھائی گئی جس میں پولنگ سٹیشنز کے باہر ووٹرز کی لمبی لمبی قطاریں دکھائی گئیں۔

صدر بشار الاسد کا خاندان 70ء کی دہائی سے برسر ِاقتدار ہے۔ صدارتی انتخابات میں صدر بشارالاسد کے مد ِمقابل دو امیدوار ہیں، اور کئی برسوں میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے۔

شام میں جاری خانہ جنگی کو اب تین سال ہو چکے ہیں، جس میں اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد شامی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔

سرکاری ٹی وی پر صدر بشار الاسد کو اپنی اہلیہ اسماء کے ہمراہ دمشق کے ایک پولنگ سٹیشن میں ووٹ ڈالتے ہوئے بھی دکھایا گیا۔

حسن النوری بھی صدارتی انتخابات میں ایک امیدوار کی حیثیت سے حصہ لے رہے ہیں، جو شام کے سابقہ وزیر برائے انتظامی اصلاحات بھی رہ چکے ہیں۔ حسن النوری کا کہنا ہے کہ انہیں توقع نہیں تھی کہ شامی عوام بڑی تعداد میں ووٹنگ کے عمل میں حصہ لیں گے۔
XS
SM
MD
LG