رسائی کے لنکس

جنیوا: شام مذاکرات کا آغاز، اسد مخالفین وفد بھیجنے پر تیار


احتجاجی مظاہرہ
احتجاجی مظاہرہ

اقوام متحدہ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ وہ علیحدہ کمروں میں اجلاس منعقد کریں گے، جب کہ بالواسطہ بالمشافیٰ مذاکرات جاری ہوں گے، جس کا مقصد خانہ جنگی کو روکنے کے لیے مذاکرات کے لیے میدان ہموار کرنا ہے۔ دو برس کے دوران، اقوام متحدہ کی جانب سے شام امن مذاکرات کی یہ دوسری کوشش ہے

پانچ برس سے جاری شام کی خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کے توسط سے مذاکرات کا آغاز جمعے کے روز جنیوا میں ہوا، جب کلیدی حزب مخالف کے گروپ نے، جو صدر بشار الاسد کی حکومت سے نبردآزما ہے، تاخیر سے بتایا ہے کہ وہ اس اجلاس میں اپنا وفد روانہ کرے گا۔

اِس سے قبل دمشق میں، اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے شام، اسٹفن دی مستورا نے وفد سے ملاقات کی، جس کی قیادت اقوام متحدہ میں شام کے سفیر، بشار جعفری نے کی۔
سفارت کار کی ایک خاتون ترجمان نے بتایا ہے کہ وہ بعد میں دیگر شرکا سے بھی ملاقات کریں گے، جن میں متمدن معاشرے کے نمائندے بھی شامل ہوں گے، جو تنازع سے متاثر ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں ڈھائی لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جب کہ لاکھوں افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ وہ علیحدہ کمروں میں اجلاس منعقد کریں گے، جب کہ بالواسطہ بالمشافیٰ مذاکرات جاری ہوں گے، جس کا مقصد خانہ جنگی کو روکنے کے لیے مذاکرات کے لیے میدان ہموار کرنا ہے۔ دو برس کے دوران، اقوام متحدہ کی جانب سے شام امن مذاکرات کی یہ دوسری کوشش ہے۔

امریکہ نے سعودی حمایت یافتہ اپوزیشن گروپ، ’دی ہائی نیگوسی ایشنز کمیٹی‘ پر زور دیا ہے کہ بغیر شرائط کے مذاکرات میں شمولیت کے ’’تاریخی موقع‘‘ کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ شروع میں، اِس گروپ نے کہا تھا کہ وہ اُس وقت تک مذاکرات سے دور رہے گا جب تک شہریوں پر فضائی حملے ختم کرنے اور شام پر قبضہ ہٹانے کی یقین دہانی نہیں کرائی جاتی؛ تاہم، بعدازاں، جمعے کو وہ اپنی ضد سے ہٹا اور گروپ نے اعلان کیا کہ وہ ’بات چیت‘ میں، نہ کہ ’مذاکرات‘ میں، شرکت کے لیے 30 سے 35 افراد پر مشتمل ایک وفد جنیوا روانہ کرے گا۔

جنگ میں معتدل اور شدت پسند باغی، دونوں ہی اسد حکومت سے لڑ رہے ہیں۔ حکومت اور معتدل اپوزیشن دونوں ایک ہی وقت انتہاپسندوں کے خلاف لڑ رہے ہیں، جس میں داعش کے شدت پسند بھی شامل ہیں۔

XS
SM
MD
LG