رسائی کے لنکس

شامی طیاروں کی عراق پر مبینہ بمباری، 57 افراد ہلاک


Federal Reserve Board Chair Janet Yellen testifies before the House Financial Services Committee hearing on the "Federal Reserve's Supervision and Regulation of the Financial System" in Washington, D.C., USA.
Federal Reserve Board Chair Janet Yellen testifies before the House Financial Services Committee hearing on the "Federal Reserve's Supervision and Regulation of the Financial System" in Washington, D.C., USA.

عراقی حکام کا کہنا ہے کہ جن علاقوں پر بمباری کی گئی وہ 'الدولۃ الاسلامیۃ فی العراق والشام (داعش)' کے جنگجووں کے قبضے میں ہیں لیکن مرنے والوں کی اکثریت عام شہریوں پر مشتمل ہے۔۔

عراقی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ شام کے جنگی طیاروں کی جانب سے عراق کے سرحدی علاقوں پر بمباری کے نتیجے میں کم از کم 57 افراد ہلاک اور 120 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق شامی طیاروں نے منگل کو عراق کے سرحدی صوبے الانبار کے کئی مقامات پر بمباری کی۔

عراقی حکام کا کہنا ہے کہ جن علاقوں پر بمباری کی گئی وہ 'الدولۃ الاسلامیۃ فی العراق والشام (داعش)' کے جنگجووں کے قبضے میں ہیں۔

لیکن مقامی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ مرنے والوں کی اکثریت عام شہریوں اور علاقہ مکینوں پر مشتمل ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کے مطابق الانبار کے صوبائی کونسل کے سربراہ صباح کرخوط نے ٹی وی کو بتایا ہے کہ شامی طیاروں نے منگل کو صوبے کے قصبوں رطبہ، الولید اور القائم پر بمباری کی۔

صوبائی عہدیدار نے شامی طیاروں کی کارروائی کو "وحشیانہ اور عام شہریوں کے خلاف" قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ طیاروں نے قصبوں کے بازاروں اور پیٹرول پمپوں پر بم برسائے۔

صباح کرخوط نے 'سی این این' کو بتایا کہ انہیں یقین ہے کہ جنگی طیاروں کا تعلق شامی افواج سے تھا کیوں کہ ان پر شام کا جھنڈا بنا ہوا تھا اور وہ شام کی سرحد کی طرف سے آتے اور وہیں واپس جاتے ہوئے دیکھے گئے۔

مقامی حکام نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ علاقہ مکینوں نے دوربینوں اور دیگر آلات کی مدد سے طیاروں پر شام کے جھنڈے بنے ہوئے دیکھے تھے۔

عراق میں اقوامِ متحدہ کے مشن کے سربراہ نکولائی ملادینوف نے بھی سرحدی عراقی قصبوں پر جنگی طیاروں کی بمباری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں دستیاب اطلاعات کے مطابق طیاروں کا تعلق عراقی فوج سے نہیں تھا۔

عالمی ادارے کے عہدیدار نے واقعے کی مزید تفصیل بتانے سے گریز کیا۔

شام کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے عراقی حکام کے سرحد پار حملوں سے متعلق دعوے کو "مکمل طور پر بے بنیاد" قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔

'سی این این' کے مطابق شام میں گزشتہ ساڑھے تین سال سے جاری خانہ جنگی کےدوران شامی فوج سنی باغیوں کے تعاقب میں اس سے قبل بھی عراق کے ان سرحدی علاقوں کو نشانہ بنا چکی ہے۔

ماضی میں کم از کم ایک بار عراق سے فائر کیے جانے والے راکٹ الانبار کے شہر القائم میں گرچکے ہیں۔ واقعے کے بعد عراق کی وزارتِ خارجہ نے خبردار کیا تھا کہ شام کی جانب سے مزید کسی بھی حملے کی صورت میں عراق اس کا جواب دے گا۔

لیکن منگل کو ہونےو الی مبینہ بمباری پر عراقی حکومت نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ 'سی این این' کے مطابق عراقی حکومت کی خاموشی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے سنی باغیوں کے خلاف شامی فوج کی سرحد پار کارروائی پر کوئی اعتراض نہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کارروائی عراقی حکومت کی مرضی سے کی گئی ہو۔

خیال رہے کہ عراق کی شیعہ حکومت امریکہ سے بھی شام سے متصل عراق کے سنی اکثریتی علاقوں پر قابض سنی جنگجووں پہ فضائی حملے کرنے کی درخواست کرچکی ہے جس پر امریکہ نے اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG