رسائی کے لنکس

دہشت گردی کے مقدمات، امریکی ترجیحات


دہشت گردی کے مقدمات، امریکی ترجیحات
دہشت گردی کے مقدمات، امریکی ترجیحات

صدر براک اوباما کے اقتدار میں آنے کے بعد امریکی محکمہِ انصاف نے کئی مبینہ دہشت گردوں پر امریکی عدالتوں میں مقدمات کا آغاز کیا جن میں سے چند ایک کو سزائیں سنائی جا چکی ہیں، جیسے ممبئی حملوں میں ملوث امریکی دہشت گرد ڈیوڈ ہیڈلی۔ جبکہ چند مقدمات زیرِ التوا ہیں جن میں نیو یارک ٹائمز سکوائر میں ناکام بم حملے کے ملزم فیصل شہزاد اور کرسمس کے موقع پر ایک امریکی ائر لائن کے جہاز کو بم سے اڑانے کی ناکام کوشش کے ملزم عمر فاروق عبدالمطلب شامل ہیں۔

دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے افغانستان میں امریکی فوجوں کی تعیناتی اور ہوم لینڈ سیکیورٹی جیسے اداروں کے قیام کے علاوہ امریکہ کے سول اداروں میں بھی تبدیلیاں لائی گئیں۔ جن میں ایف بی آئی اور امریکی محکمہ انصاف کے درمیان بہتر تعاون اور تحقیقات کے لیے ان کا طریقہ کار شامل ہے۔

امریکی اسسٹنٹ اٹارنی جنرل ڈیویس کرس کا کہنا ہے کہ ہم نے اس تبدیلی کا آغاز ایک اہم قانونی تبدیلی سے کیا جس میں ہم نے FISA کے باعث درپیش رکاوٹوں کا خاتمہ کیا۔اس سے قبل قانون نافذ کرنے والے ادارے اور انٹیلی جنس الگ الگ ادارے تھے۔جس کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کا مقابلہ مؤثر انداز سے نہیں کرپارہے تھے۔

FISA یعنی Foreign Intelligence Surveillance Act غیر ملکی مشکوک شخصیات کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کا قانون ہے ۔ جس میں 2006 ءمیں تبدیلیاں لائی گئیں۔ امریکہ میں یہ سوچ بھی عام ہے کہ دہشت گرد عام مجرم نہیں ہیں اس لیے ان کا مقابلہ فوج اور انٹیلی جنس سے کیا جائے، نہ کہ قانون نا فذ کرنے والے اداروں سے۔ لیکن اسسٹنٹ اٹارنی جنرل ڈیوس کرس کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے تین طرح سے کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ پہلا یہ کہ اس سے گرفتاریوں کے ذریعے دہشت گردی کے منصوبوں کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔دہشت گردوں کو مقدمات کے ذریعے جیل میں ڈال کر غیر مؤثر کیا جا سکتا ہے۔ اور تیسرا یہ کہ اگر وہ تعاون کرنے پر راضی ہو جائیں تو ان سے یا ان کے حامیوں سے معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔

ستمبر 2001ءسے لے کر مارچ2010 ءتک امریکی محکمہ انصاف 400 افراد کو مجرم قرار دے چکا ہے، جو کسی نہ کسی طرح دہشت گردی میں ملوث تھے۔ مگر نجیب الله زازی، ڈیوڈ ہیڈلی اور فیصل شہزاد پر جرم تو ثابت ہو چکا ہے مگر وہ سزاؤں کے منتظر ہیں۔

مسٹر کرس کہتے ہیں کہ یہ تمام مقدمے ہیڈلانز نہیں بنتے اور نہ ہی یہ تمام افراد جن پر جرم ثابت ہو چکا ہے خطرناک یا بدترین دہشت گرد تھے۔ تفتیشی اور انٹیلی جنس ادارے جس طریقے سے کام کرتے ہیں اس کے ذریعے چھوٹی مچھلیوں کے ساتھ بڑی مچھلیوں کو بھی پکڑا جا سکتا ہے۔

ڈیوس کرس کا کہنا تھا کہ جب سول عدالت میں مقدمات چلائے جا رہے ہوتے ہیں تو ان کے فیصلے قانون کی روشنی میں ہوتے ہیں اور اگر حکومت کا کیس مضبوط ہو تو ملزم کو علم ہوتا ہے کہ اسے طویل قید ہو سکتی ہے۔ جس کے باعث وہ حکومت سے تعاون کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔

دہشت گردوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے استعمال کے حامیوں کا یہ کہنا ہے کہ فوجی یا حساس اداروں کی کاروائیوں کی طرح قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ایک مؤثر ہتھیار ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

XS
SM
MD
LG