رسائی کے لنکس

دہشت گردی کا مرکز مشرق وسطیٰ سے جنوبی ایشیا منتقل


اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ، 2009 میں دہشت گردی پر رپورٹ کا اجراء
اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ، 2009 میں دہشت گردی پر رپورٹ کا اجراء

امریکی وزارت خارجہ کی جمعرات کی ایک رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ پاکستان میں القاعدہ کے کچھ اہم عناصر امریکی سرزمین کے لیے دہشت گرد ی کابدستور سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ 2009 ء سے متعلق اس سالانہ رپورٹ میں دہشت گرد سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ سے جنوبی ایشیا منتقل ہوگئی ہیں۔

کانگریس کے اختیار کے تحت جاری ہونے والی عالمی دہشت گردی سے متعلق اس رپورٹ میں کچھ حیران کن پہلو بھی ہیں۔ جب کہ رپورٹ میں دہشت گردی کی سر پرستی کرنے والے ملکوں کی فہرست میں ایران، کیوبا، سوڈان اور شام کے نام گذشتہ برس کی طرح موجود ہیں۔

تاہم عہدے داروں کا کہنا ہے کہ جب سے اس حوالے سے اعدادوشمار اکھٹے کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے ، یہ پہلا سال ہے کہ مشرق وسطیٰ کی نسبت دہشت گردی کے زیادہ واقعات جنوبی ایشیا میں رونما ہوئے ہیں۔

انسداد دہشت گردی کے قومی مرکز کے ڈپٹی ڈائریکٹر رس ٹریورز نے صحافیوں کو بتایا کہ 2009ء میں پیش آنے والےدہشت گردی کے تقریباً11 ہزار واقعات میں سے 75 فی صد انہی دو علاقوں میں ہوئے ۔

ان کا کہناتھاکہ مشرق وسطیٰ میں پچھلے تین یا چار برسوں میں ہم نے اس طرح کے واقعات کی کل تعداد میں خاصی نمایاں کمی دیکھی ہے۔ اور جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہوا ہے اور جب سے ہم یہ اعداد وشمار جمع کررہے ہیں، 2009ء وہ پہلا سال ہے کہ جنوبی ایشیا میں مشرق وسطی ٰ کے مقابلے میں تشدد کے زیادہ واقعات پیش آئے۔

رپورٹ میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو غیر مسلح افراد کے خلاف سوچے سمجھے اور سیاسی محرکات کےتحت کیے جانے جانے والے تشدد سے تعبیر کیا گیا ہے۔

تاہم حملوں کی کل تعداداور ان سے منسلک کی گئیں تقریباً 16 ہزار ہلاکتیں ، دونوں 2008ء کے مقابلے میں قدرے کم رہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کے انسداد دہشت گردی کے کوآرڈی نیٹر ڈینیئل بنجمن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اسامہ بن لادن کے القاعدہ گروپ کے اہم ترین ارکان بدستور امریکہ کی سلامتی اور اس کے مفادات کے لیے سب سے بڑا خطرہ رہے۔

انہوں نے اس تنظیم کوخود کو حالات کے مطابق ڈھالنے والا اور لچک دار خصوصیات رکھنے والا گروپ قراردیا ، لیکن ان کا کہنا تھاکہ پچھلے سال اس گروپ کو نمایاں نقصانات کا سامنا ہوا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں یہ گروپ وفاق کے زیر اہتمام قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے مضبوط ٹھکانے ختم کرنے کے لیے شروع کی گئی فوجی کارروائیوں کی بنا پر بدستور شدید دباؤ میں رہا ۔ القاعدہ کو اپنے کئی اہم لیڈروں سے محروم ہونا پڑا اور اس کے نتیجے میں ان کے لیے رقوم جمع کرنا ، ریکروٹوں کی تربیت کرنا اور علاقے سے باہر حملوں کی منصوبہ بندی کرنا مزید مشکل ہوگیا ۔

بنجمن کا کہنا تھا کہ القاعدہ نے جزیرہ نما عرب، شمالی افریقہ میں اپنے علاقائی ساتھیوں کی حوصلہ افزائی اوراپنے عالمی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کوششیں کی ہیں ۔

انہوں نے کہا کمپالا میں فٹ بال کے شائقین پر 11 جولائی کے بم حملے ، جن کی ذمہ داری کا دعویٰ القاعدہ سے منسلک الشباب ملیشیا نے کیاتھا، بظاہر اس گروپ کی صومالیہ سے باہر کی جانے والی کوئی پہلی دہشت گرد کارروائی تھی۔

دہشت گردی کی سرپرستی کرنےوالے اورسخت امریکی پابندیوں کا سامنا کرنے والے ملکوں کی فہرست میں ایران، کیوبا، سوڈان اور شام کے نام شامل ہیں۔ لیکن بنجمن کا کہنا ہے کہ اری ٹیریا اور وینز ویلا کا حوالہ انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں پوری طرح تعاون نہ کرنے والے ملکوں کے طور پر دیا گیا ۔

شمالی کوریا کانام 2008ء میں دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والے ملکوں کی فہرست میں سے دہشت گردی کی کسی حالیہ کارروائی سے منسلک نہ ہونے کی بنا پر خارج کردیا گیا تھا ۔

تاہم بنجمن کا کہنا ہے کہ امریکہ اب ان رپورٹوں کا جائزہ لے رہاہے جن میں کہا گیا ہے کہ پیانگ یانگ نے افغان طالبان اور مشرق وسطیٰ میں حماس اورحزب اللہ کو ہتھیار بھیجنے کی کوشش کی تھی۔

انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہم نے وہ رپورٹیں دیکھی ہیں۔ ہم ان کا جائزہ لے رہے ہیں ۔ وزیر خارجہ کلنٹن اور انتظامیہ میں دوسرے افراد اس بارے میں واضح ہیں کہ اگر ہمیں یہ پتا چلا کہ شمالی کوریا واقعی دہشت گردی کی سرپرستی کررہاہے تو یقینی طورپر ہم دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والے ممالک کی فہرست سے اس کا نام نکالنے کے مسئلے کا دوبارہ جائزہ لیں گے۔

ببنجمن نے شمالی کوریا کے خلاف کسی جلد کارروائی کی توقع سے انکار کیا ۔ امریکی عہدے داروں نے مارچ میں جنوبی کوریا کی بحریہ کے جہاز ، چنونن کے ڈوبنے کے واقعے کو، جسے شمالی کوریا سے منسوب کیا گیا تھا ، ایسے دو ملکوں کے درمیان، جو تکنیکی اعتبار سے حالت جنگ میں ہوں، ایک فوج کا دوسری فوج پر حملہ قرار دیا ، نہ کہ دہشت گردی کا کوئی واقعہ۔

XS
SM
MD
LG