رسائی کے لنکس

تھائی لینڈ: سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے مذاکرات کا امکان


تھائی لینڈ میں حکومت مخالف مظاہرین اپنی ریلیاں حکومت نواز گروپس کے نزدیک تر لانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ لیکن تقریباً سات ہفتوں سے مظاہرین کے گھیرے میں موجود تھائی حکومت کا کہنا ہے کہ تشدد کے نئے واقعات کے نہ ہونے کی صورت میں وہ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

منگل کےر وز کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوا جب حکومت مخالف مظاہرین نے ریل کی پٹریوں پر ٹائر رکھ دیے اور بنکاک کے سکائی ٹرین سٹم کو کئی گھنٹوں تک بند رکھنے پر مجبور کردیا۔

ریڈشرٹ کے طورپر معروف ان مظاہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ فوج کی ایک پرتشدد پکڑ دھکڑ کو ناکام بنانے کے لیے ان مقامات کے قریب چلے جائیں گے جہاں حکومت نواز گروپس اپنی ریلیاں نکال رہے ہیں۔

ریڈ شرٹس کے ایک ترجمان ژاں بون پرا کونگ فوج پر دوہرامعیار اختیار کرنے کاالزام عائد کرتے ہیں کیونکہ وہ حکومت نواز ریلیوں کر برداشت کررہی ہے لیکن ریڈ شرٹس کے مظاہرین کو اپنی مظاہرے بند کرنے کی دھمکی دے رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت نواز مظاہرین ، ریلیاں نکال سکتے ہیں لیکن فوج انہیں منشتر کرنے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کرتی ۔ وہ بڑی آزادی سے اکھٹے ہوسکتے ہیں اور فوج نے انہیں کچھ نہیں کہا۔اب ہم حکومت نواز ریلیوں کے قریب چلے جائیں گے ۔ اگر فوج ہمیں منشتر کرنا چاہتی ہے تواسے ہمارے ساتھ ساتھ حکومت نواز ریلیوں کو بھی منشتر کرنا ہوگا۔ یہ فوج کے کمانڈر کے لیے ہمارا پیغام ہے۔

مظاہرین ، جن کی قیادت ڈکٹیٹر شپ کا مخالف یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کررہاہے، چاہتے ہیں وزیر اعظم ابھیشیت وجا جیوا استعفی دے دیں اور فوری طورپر انتخابات کرائیں۔ حکومت اس مطالبے کو مسترد کرتی ہے۔

تاہم حکمران ڈیموکریٹ پارٹی کے ایک ترجمان برانوج سما تھراک کا کہنا ہے کہ حکومت نئے مذاکرات کی پیش کش صرف مزید تشدد نہ ہونے کی صورت میں کررہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اہم بات یہ ہے کہ عوام کا تحفظ یقینی بنایا جائے اور ہمیں اعتماد ہے کہ ہم ملک میں امن و امان بحال کرسکتے ہیں اور حکومت بھی مظاہرین سے منسلک گروپس کی جانب سےاس صورت میں مذاکرات کے لیے تیار ہے اگر وہ تشدد کا استعمال نہ کریں۔

یہ مظاہرے تقریباً 20 سال میں ہونے والے شدید ترین مظاہرے ہیں۔ فوج اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں اور دستی بموں کے حملوں میں کم ازکم 26 افراد ہلاک اور تقریباً ایک ہزار زخمی ہوچکے ہیں۔

ریڈشرٹ کے ارکان زیادہ تر سابق وزیر اعظم تھاکسن شنوترا کے حامی ہیں جنہیں 2006ء میں ایک فوجی انقلاب کے ذریعے فوج سے الگ کردیا گیا تھا۔

یوڈی ڈی کا کہنا ہے کہ مسٹر ابھیشیت کی حکومت کے پاس قانونی جواز موجود نہیں ہے کیونکہ وہ ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں منتخب تھاکسن نواز انتظامیہ کی برطرفی کے بعد ایک پارلیمانی سمجھوتے کے تحت قتدار میں آئی تھی۔

XS
SM
MD
LG