رسائی کے لنکس

ماضی سے 'تحریک نسواں کی علمبردار' خواتین کی سرگزشت


'وومن فٹ پرنٹ ان ہسٹری' میں ماضی کی چند قابل ذکر خواتین کی جدوجہد اور کامیابیوں کو ظاہر کیا گیا ہے اور صنفی مساوات کےحوالے سے آج کے معاشرے کی ترقی کی رفتار کا اندازا لگایا گیا ہے۔

یہ المیہ ہے کہ دنیا کے ہر حصے اور ہر زمانے میں عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے اور انھیں بنیادی حقوق سے محروم کر کے ان پر ترقی کے دروازے بند کر دیے گئے۔

لیکن ماضی میں تحریک نسواں کی علمبردار ایسی دلیر عورتوں کی سرگزشت بھی سنائی دیتی ہے، جنھوں نے اپنی قابلیت، تدبر اور قیادت کے ذریعے نامساعد حالات میں رہتے ہوئے، معاشرے کو بہتر بنانے میں اپنا غیر معمولی حصہ ڈالا ہے۔

عورتوں کے دن کی مناسبت سے اقوام متحدہ کی طرف سے شائع ہونے والی ایک تصویری کہانی 'وومن فٹ پرنٹ ان ہسٹری' میں ماضی کی چند قابل ذکر خواتین کی جدوجہد اور کامیابیوں کو ظاہر کیا گیا ہے اور صنفی مساوات کے حوالے سے آج کے معاشرے کی ترقی کی رفتار کا اندازا لگایا گیا ہے۔

پہلی یونانی گائناکالوجسٹ ایگنوڈسی: وہ چوتھی قبل از مسیح میں دائی اور پہلی یونانی گائناکالوجسٹ تھیں انھیں ان کی طبی خدمات کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ان سے پہلے یونان میں عورتیں مریضوں کی دیکھ بھال کیا کرتی تھیں وہ دائی تھیں لیکن طب کی مشق کرنے کی انھیں اجازت نہیں تھی۔

کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اس زمانے میں جرات کے ساتھ طب کی مشق کی، جب عورتوں کو ایسا کرنے پر سزائے موت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

لیکن بلاآخر ایک روز وہ پکڑی گئیں اورجب مریضوں کی طرف سے ان کا دفاع کیا گیا اور ان کی بیگناہی ثابت ہو گئی تو، یونان کی حکومت کو قوانین میں تبدیلیاں لانی پڑیں اور عورتوں کو طب کی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے دی گئی۔

عورتوں کی صحت کے اعداد و شمار : اقوام متحدہ کے مطابق تاریخ میں غیر معمولی طبی ترقی کے باوجود 800 سے زائد عورتیں ہر روز حمل اور بچے کی پیدائش سے متعلق قابل علاج بیماریوں کی وجہ سے مر جاتی ہیں اور ان میں سے 99 فیصد عورتوں کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے۔

عورتوں کی تعلیم کی ہسپانوی کارکن سور ہوانا انیس دے لا کروز: وہ میکسیکو کی ایک مشہور مصنفہ اور راہبہ تھیں۔ انھیں عورتوں کی تعلیم کےحقوق کا علمبردار کہا جاتا ہے۔ سترہویں صدی میں انھیں لادینی (سیکولر) تعلیمات کا مطالعہ کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ایک متنازعہ شخصیت قرار دے دیا گیا تھا۔

انھوں نے 1651ء میں عورتوں کی تعلیم کےحق کا دفاع کیا اور یہ نعرہ بلند کیا ایک عورت رات کا کھانا پکاتے ہوئے بھی ایک بہترین نظریہ تشکیل دے سکتی ہے۔ بعد میں سورہوانا انیس دے لاکروز قوم کی ایک نمائندہ خاتون کہلائیں، ان کی تصویر میکسیکو کی کرنسی پر آج بھی موجود ہے۔

عورتوں کی تعیلم کا حق : یہاں تک کہ آج تعلیم کی ہر سطح پرصنفی مساوات کے حصول میں خاصی ترقی ہوئی ہے لیکن اقوام متحدہ کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کچھ ترقی پذیر خطوں میں آج بھی تفاوت باقی ہے مثال کے طور پر افریقہ صحارا میں ہر 100لڑکوں کے مقابلے میں 70 لڑکیاں تیسرے درجے کی تعلیم میں داخل ہوتی ہیں۔

روسی سماجی کارکن اینا فلوسو فاوا : اپنے دور کی نامور سماجی کارکن اور روسی انسان دوست خاتون اینا فلوسوفاوا کو اس بات پر یقین تھا کہ، غریبوں کو نقد رقم کے وظائف فراہم کرنے کے بجائے انھیں تعلیم اور ہنر مند بنانے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے 1960ء میں ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی، جو غریب عورتوں کو مناسب روزگار فراہم کرتی تھی۔

غربت دنیا کا بڑا مسئلہ : غربت ہمارے آج کے بڑے مسائل میں سے ایک ہے، جو سب سے زیادہ عورتوں کی صحت روزگار اور ان کے تحفظ کو متاثر کر رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق آج 836 لاکھ افراد انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔

عورتوں کے ووٹ کا حق مانگنے والی سفراجیٹ کیٹ شیپرڈ : وہ نیوزی لینڈ کی مشہور سفرا جیٹ ہیں انھوں نے حقوق نسواں کے لیےحکومت کے ایوانوں میں آواز اٹھائی، کیٹ شیفرڈ نے اپنی ساتھی کارکنوں کے ساتھ مل کر نیوزی لینڈ کے پارلیمان میں ایک درخواست پیش کی۔

جس میں 32 ہزار عورتوں کے دستخط کے ساتھ عورتوں کے لیے ووٹ کےحق کا مطالبہ کیا گیا تھا اور ان کے اہم اقدام کے نتیجے میں نیوزی لینڈ وہ پہلا ملک تھا جہاں 1893ء میں خواتین کے ووٹ کا حق تسلیم کیا گیا۔

سیاست میں عورتوں کی نمائندگی : عورتوں کی نمائندگی بدستور سیاست میں کم ہے۔2015 ء میں صرف 22فیصد تمام قومی پارلیمنٹیرین تھیں جو 1995ء سے 3.11 فیصد کے مقابلے میں ایک سست اضافہ ہے۔

ادب میں خواتین کا حصہ مانگنے والی جاپانی مصنفہ رایچو ہیراتسکا: رایچو ہیرا تسکا ایک جاپانی ایڈیٹر، مصنفہ، سماجی کارکن اور ایک سیاسی کارکن تھیں۔

​انھوں نے 1911ء میں ملک کے پہلے 'صرف خواتین کے' ادبی جریدے 'سیاتو ' کی اشاعت شروع کی اور اس رسالے کےذریعے انھوں نے عورتوں کو جرات دلائی کہ وہ دنیا پر ظاہر کریں کہ جینئس ہمارے اندر چھپا ہے۔

انتظامی عہدوں پر عورتوں کی نمائندگی : خواتین کو آج بھی خبروں میں خال خال رکھا جاتا ہے اور ہر چار میں سے صرف ایک شخص خواتین کی خبروں کو سنتا یا پڑھتا ہے جبکہ اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف 28 فیصد عورتیں میڈیا تنظیموں کی ٹاپ انتظامی عہدوں پر فائز ہیں۔

عورتوں کے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرنے والی مصری سماجی کارکن دریہ شفیق : دریہ شفیق نے 1951ء میں مصر میں عورتوں کے حقوق کی ایک تحریک چلائی اور انھوں نے پندرہ سو خواتین کے ساتھ عورتوں کے سیاسی حقوق، اجرت میں مساوات پارلیمان میں دھاوا بول دیا، ان کی کوششوں اور ان گنت لوگوں کے تعاون کی وجہ سے 1952ء میں خواتین کے ووٹ کی راہ ہموار ہوئی۔

عورتوں کو آج بھی عدم مساوات کا سامنا ہے : اگرچہ 140 ممالک اپنے قانون میں ضنفی مساوات کی ضمانت دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود خواتین کو قانون، پالیسیوں، سماجی طریقوں اور دقیانوسی تصورات کے ذریعے براہ راست یا بالواسطہ طور پر عدم مساوات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

برطانوی خاتون محقق روزالنڈا فرینکلین : روزالنڈا فرینکلین ایک انگریز کیمیا دان تھیں انھیں فزکس کے میدان کی ایک نمایاں خاتون کہا جاتا ہے۔ جنھوں نے 1951ء ایکس رے کے انقلابی استعمال کے ذریعے ڈی این اے کے سالماتی ڈھانچے کی دریافت کی تھی۔ فرینکلین نے انتہائی باریک ایکس رے کی شعاعوں کی نمائش کے ذریعے اہم تصویری ثبوت حاصل کئے تھے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی میں عورتوں کی نمائندگی : خواتین کے پاس آج بھی غیر روایتی تعلیم کے مواقع کم ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق قدرتی سائنس، انجنیئرنگ، ٹیکنالوجی، میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز، زرعی سائنس، سوشل سائنسز اور ہیومینیٹیز میں خواتین 30فیصد محققین پر مشتمل ہیں۔

اجرت میں مساوات کا مطالبہ کرنے والی امریکی کھلاڑی بیلی جین کنگ : وہ ایک امریکی سابق عالمی نمبر ون پروفیشنل ٹینس کھلاڑی اور سماجی کارکن تھیں۔

انھوں نے 1973ء میں یو ایس اوپن کا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دی تھی ان کا مطالبہ تھا کہ عورت کھلاڑیوں کو برابر انعامی رقم دی جائے اور ان کا یہ مطالبہ تسلیم بھی کر لیا گیا۔

صنفی اجرت میں فرق : حتیٰ کہ ان کی کوششوں کے بعد آج بھی صنفی اجرت کا فرق زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہے۔ دنیا بھر میں عورتیں مردوں کے مقابلے میں 24فیصد کم کماتی ہیں۔

قومیت کا حق مانگنے والی جج یونٹی ڈاؤ : وہ بوٹسوانا کی پہلی خاتون جج ہیں اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن اور مصنفہ ہیں۔

وہ ایک دیہی علاقے سے آئی تھیں ایک مدعی کی حیثیت سے انھوں نے 1992 ء میں ایک تاریخی مقدمہ جیت لیا جس میں انھوں نے عورتوں کو غیر شہریوں سے شادی کرنے پر بچوں کی قومیت عطا کرنے کا حق حاصل کیا۔

عورتوں کے قومیت سے متعلق حقوق: بات جب قومیت کی آتی ہے تو آج بھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے دنیا کے 60 سے زائد ممالک میں عورتوں کو قومیت کا حق برقرار رکھنے یا قومیت فراہم کرنے یا تبدیل کرنے سے محروم رکھا گیا ہے۔

لونیس مدزورو اور روومبو سوپودزی : ان دونوں خواتین نے بچوں کی شادی پر عدالت میں اپنی حکومت کے خلاف آواز اٹھائی۔

لونس اور رومبو اس وقت عالمی خبروں کا حصہ بنیں۔ جب زمبابوے کی ایک آئینی عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیا جس کے بعد 18 سال سے کم عمر میں شادی پر پابندی عائد کر دی گئی۔

XS
SM
MD
LG