رسائی کے لنکس

اربیل: جنرل ڈنفرڈ کی صدر بارزانی سے ملاقات


جنرل ڈنفرڈ (فائل)
جنرل ڈنفرڈ (فائل)

ڈنفرڈ نے مسعود بارزانی کو بتایا کہ امریکہ اور کردوں کا ’ایک مشترکہ دشمن ہے‘۔ گذشتہ ایک برس سے زائد عرصے میں امریکی قیادت میں لڑنے والے اتحاد کی جانب سے فضائی حملوں کی مدد سے، کرد جنگجوؤں کو شمالی عراق کے علاقوں سے باہر دھکیلنے میں کچھ قدر کامیابی حاصل ہوئی ہے

امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے سربراہ، جنرل جوزف ڈنفرڈ نے منگل کے روز اربیل میں عراقی کردستان کےخطے کے صدر سے ملاقات کی۔ اُن کے دورے کا مقصد داعش کے شدت پسندوں کے خلاف جاری لڑائی کا بذات خود جائزہ لینا ہے۔

ڈنفرڈ نے مسعود بارزانی کو بتایا کہ امریکہ اور کردوں کا ’ایک مشترکہ دشمن ہے‘۔

گذشتہ ایک برس سے زائد عرصے سے امریکی قیادت میں لڑنے والے اتحاد کی جانب سے فضائی حملوں کی مدد سے، کرد جنگجوؤں کو شمالی عراق کے علاقوں سے باہر دھکیلنے میں کچھ قدر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

ملک کے دوسرے حصوں میں فضائی حملوں کی مدد سے عراق کی فوج اور حکومت حامی ملیشیاؤں کو زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

ڈنفرڈ کے دورے میں بیجی کی صورت حال پر بھی گفت و شنید کرنا شامل ہے، جہاں گذشتہ ہفتے عراقی فوجوں نے شہر کی تیل کی رفائنری کا کنٹرول دوبارہ سنبھال لیا ہے۔

یکم اکتوبر کو یہ منصب سنبھالنے کے بعد عراق کا یہ ان کا پہلا دورہ ہے۔

اپنے ساتھ سفر کرنے والے صحافیوں سے گفتگو میں جنرل ڈنفورڈ کا کہنا تھا کہ انھیں عراقی عہدیداروں نے یقین دلایا ہے کہ انھوں نے فضائی کارروائیاں کرنے والے گروپ میں شامل ہونے کے لیے روس سے نہیں کہا ہے۔

روس نے تین ہفتوں سے شام میں فضائی کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں جس میں وہ دہشت گردوں کو نشانہ بنا رہا ہے لیکن امریکہ اور دیگر مغربی ممالک ماسکو پر یہ کہہ کر کر تنقید کر رہے ہیں کہ وہ داعش سے زیادہ صدر بشارالاسد کے مخالفین کو زیادہ نشانہ بنا رہا ہے۔ روس اس کی تردید کرتا ہے۔

متعدد عراقی عہدیداروں نے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ روس کی عراق میں بھی موجودگی کا خیرمقدم کریں گے لیکن ڈنفورڈ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم حیدرالعبادی نے روسی فضائی کارروائیوں کے لیے کوئی درخواست نہیں کی۔

کرد جنگجو نے شمالی عراق سے داعش کو پسپا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انھیں امریکی زیرقیادت اتحادیوں کی فضائی کارروائیوں کی صورت میں مدد بھی حاصل رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG