رسائی کے لنکس

رات میں بچوں کو کہانی سنانے کی روایت ختم ہونے کو ہے


بچوں کو کہانی سنانا
بچوں کو کہانی سنانا

تحقیق میں یہ بات واضح طور پر سامنے آئی کہ بچوں میں کتابیں پڑھنے کا شوق گذشتہ برسوں کے مقابلے میں بہت کم ہو گیا ہے جبکہ بچے پڑھائی سے تین گنا زیادہ وقت ویڈیو گیمز، انٹرنیٹ اور ٹی وی دیکھنے میں صرف کررہے ہیں

بچوں کو رات میں سونے سے پہلے کہانیاں سنانے کی روایت اب دم توڑتی جارہی ہے۔ دوسری طرف، بچوں میں بھی کہانی سننے کا شوق پہلے جیسا نظر نہیں آتا۔ تحقیق دانوں کے مطابق یہ روایت اب ماضی کا قصہ بنے جا رہی ہے۔

گذشتہ برس کی جانےوالی ایک تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہےکہ کتابیں پڑھنا بچوں کا پسندیدہ مشغلہ نہیں رہا ہے۔ بچوں میں لمبے وقت تک ایک ہی کتاب پر توجہ مرکوز رکھنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہوئی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ کتاب پڑھنے میں ان کی دلچسپی برقرار نہیں رہتی ۔

ماہرین کے مطابق انٹرنیٹ اور ویڈیو گیم کے زیر اثر پلنے والے بچوں کو کتابیں بور کرتی ہیں ۔ روز بروز بڑھتے ہوئے معیارزندگی کے مسائل نے والدین کوبھی معاشی سرگرمیوں تک محدود کر کے رکھ دیا ہے ۔ کہانی سننے اور سنانے دونوں میں دلچسپی کا عنصر ختم ہوتا جارہا ہے ۔
لندن میں 'پبلشنگ اینڈ ایجوکیشن جائنٹ پیرسن 'کے زیر انتظام ایک تحقیق بچوں میں کتابیں پڑھنے کا رجحان کو دیکھنے کے حوالے سے کی گئی ۔اس تحقیق میں اساتذہ اور والدین دونوں کو شامل کیا گیا ۔

تحقیق دانوں نے سروے میں حصہ لینےوالےوالدین اور اساتذہ کی رائے جاننے کے لیے انھیں دو گروپوں میں تقسیم کیا۔ پہلے گروپ میں 410 اساتذہ شامل ہوئے جبکہ دوسرے گروپ میں شامل 2000 والدین ایسے تھے جن کے بچوں کی عمریں 2 سے 11سال کے درمیان تھیں۔
تحقیق میں یہ بات واضح طور پر سامنے آئی کہ بچوں میں کتابیں پڑھنے کا شوق گذشتہ برسوں کے مقابلے میں بہت کم ہو گیا ہے جبکہ بچے پڑھائی سے تین گنا زیادہ وقت ویڈیو گیمز، انٹرنیٹ اور ٹی وی دیکھنے میں صرف کررہے ہیں۔

سروے میں والدین سے پوچھا گیا، کیا وہ اپنے بچے کے لیےہر روزکہانی کی کتاب پڑھتے ہیں ؟

ہر چار میں سے ایک ماں باپ کا کہنا تھا کہ انھوں نےکبھی اپنے بچے کو رات میں کہانی کی کتاب نہیں سنائی۔

جبکہ ہر دس میں سے 4 یعنی 42 فیصد والدین کے مطابق وہ ہفتے میں ایک بار ضرور اپنے بچے کے لیے کہانی کی کتاب پڑھتےہیں ،8 فیصدی والدین ایسے تھے جنھوں نے کہا کہ وہ چھ ماہ میں شاید ایک باراپنے بچے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔

والدین کی مجموعی رائے کےمطابق ، بچے ٹی وی دیکھنا،کمپیوٹرپر وقت گذارنا اور ویڈیو گیمز کھیلنا زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ والدین نےیہ بھی بتایا کہ انھوں نے اپنے بچے کی دو برس عمر ہو جانے کے بعد پہلی باراس کے لیے کتاب پڑھی ۔

جبکہ اساتذہ کی رائے میں طالب علم کلاس میں کورس کی کتابیں پڑھنے میں دھیان نہیں دیتے ہیں۔91 فیصد اساتذہ کا ماننا ہے کہ، طالب علم زیادہ دیرتک اپنی توجہ ایک ہی مضمون پر مرکوز نہیں رکھ پاتے ہیں تاہم والدین اگر بچوں کو گھر میں کتابیں پڑھنے کی ترغیب دیں توبچوں میں کتب بینی کا شوق پھرسےبیدار کیا جا سکتا ہے۔

پبلشنگ ادارے پیرسن کے سربراہ راڈ بریسٹو کے مطابق برسوں کا تجربہ اور تحقیق دونوں اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ،بچوں میں کتابیں پڑھنے کا شوق ان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے،مگرموجودہ دورمیں بچوں میں کتاب سے لگاؤ پیدا کرنے کا مطالبہ کرنا اور ان کا کتابوں کی طرف مائل نہ ہونا تشویش کا باعث ہے ۔

ایک دوسری تحقیق ' نشنل لٹریسی ٹرسٹ' کی جانب سے سامنے آئی ہے جس میں نوجوانوں میں کتاب پڑھنے کی عادت کا مشاہدہ کیا گیا ۔ اس سروے میں11 سے 16 سال کے نوجوانوں نے حصہ لیا۔
تحقیق میں حصہ لینے والے 33 فیصد نوجوانوں نے کتابیں پڑھنا اپنا پسندیدہ مشغلہ بتایاجبکہ، یہ ہی سوچ 14 سے 16سال کے نوجوانوں میں صرف 24فیصد دیکھی گئی، 17 فیصدی نوجوانوں کی رائے میں اگر انھیں کتابیں پڑھتے وقت کوئی دیکھ لے تو انھیں شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔

پچاسی فیصد نوجوانوں نے بتایا کہ انھیں ان کی والدہ کی طرف سے گھر میں پڑھائی کرنے کی تاکید کی جاتی ہے۔نوجوانوں میں کتابیں ، رسالے حتی کہ کمپیوٹر کی ویب سائٹ پڑھنے کا رجحان میں بھی گذشتہ سات برسوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔

تحقیق دانوں کی رائے میں طالب علموں کے لیے پڑھائی کےلیے وقت نکالنا بہت ضروری ہےجوطالب علم کورس کی کتابوں کے علاوہ کتابیں پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں وہ امتحانات میں بہتر نتائج لاتے ہیں۔

اسی طرح جو بچے اسکول میں پڑھائی کرنے کے ساتھ روزانہ گھر میں بھی پڑھائی کرتے ہیں ان کی معلومات کلاس کے ہم عمر بچوں کی بہ نسبت تیرہ گنازیادہ ہوتی ہے۔
XS
SM
MD
LG