رسائی کے لنکس

دہشت گردی ترکی کی سیاست پر اثر انداز نہیں ہوگی، تجزیہ کار


مہمت سیلک نے کہا کہ ترکی کی سکیورٹی کو درپیش چیلنجز کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کی سرحدیں عراق اور شام سے ملتی ہیں جو ان کے بقول "ناکام ریاستیں" ہیں۔

ترکی سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترک سکیورٹی اداروں ملک کو لاحق خطرات سے نبٹنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں اور دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے کوئی بڑے سیاسی نتائج برآمد ہونے کی توقع نہیں۔

ترکی کے شہر استنبول کے اتاترک ہوائی اڈے پر منگل کو تین خود کش حملہ آوروں کے حملے میں کم از کم 42 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

ترک حکام نے حملے کی ذمہ داری داعش پر عائد کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق روس، ازبکستان اور کرغزستان سے تھا۔

استنبول کا ہوائی اڈہ یورپ کا تیسرا مصروف ترین ہوائی اڈہ ہے اور یہ رواں سال استنبول شہر میں ہونےوالا دہشت گردی کا تیسرا بڑا واقعہ تھا۔

مہمت سیلک نے اس تاثر کو رد کیا کہ ترکی نے داعش کے خلاف موثر کارروائی میں کسی پس و پیش سے کام لیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انقرہ حکومت نے داعش کو 2013ء کے اوائل میں اس وقت ہی دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا جب وہ شام کی سرحدوں سے باہر نہیں نکلی تھی۔

مہمت سیلک
مہمت سیلک

مہمت سیلک نے کہا کہ ترکی کی سکیورٹی کو درپیش چیلنجز کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کی سرحدیں عراق اور شام سے ملتی ہیں جو ان کے بقول "ناکام ریاستیں" ہیں۔ ان کی رائے تھی کہ موجودہ سیاسی صورتِ حال کا صدر رجب طیب ایردوان اور موجودہ حکومت پرکوئی خاص اثر پڑنے کا امکان نہیں ہے۔

اسد حسن سے گفتگو کرتے ہوئے ترکی میں مقیم افغان نژاد صحافی اور تجزیہ کار فاریبہ ناوا نے کہا کہ داعش ترکی کے لیے 'پی کے کے' سے بڑا خطرہ بن گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ترک حکومت کو کرد باغیوں کے ساتھ سیاسی مفاہمت کا عمل شروع کرنا چاہیے تاکہ باغیوں کے ساتھ جنگ بندی بحال ہوسکے اور ترک سکیورٹی ادارے اپنی پوری توجہ داعش سے نبٹنے پر صرف کرسکیں۔

فاریبہ کا کہنا تھا کہ ترک سکیورٹی ادارے اور فوج مکمل طور پر چوکس اور ملک کی سلامتی کو درپیش خطرات سے نبٹنے کی مکمل اہلیت رکھتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG