رسائی کے لنکس

فرانس میں متنازع قانون کی منظوری پہ ترکی برہم


فرانس میں متنازع قانون کی منظوری پہ ترکی برہم
فرانس میں متنازع قانون کی منظوری پہ ترکی برہم

ترکی نے فرانسیسی پارلیمان کی جانب سے منظور کردہ اس قانون کو "امتیازی اور نسل پرستی" پر مبنی قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے جس کے تحت ایک صدی قبل ترکی کی عثمانی خلافت کے دور میں آرمینی باشندوں کے قتلِ عام کے انکار کو قابلِ سزا جرم قرار دے دیا گیا ہے۔

منگل کو اپنے باضابطہ ردِ عمل میں ترکی کے وزیرِ اعظم نے قانون کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بطورِ احتجاج فرانس کے خلاف "مرحلہ وار" پابندیاں عائد کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔

ترکی کے وزیرِاعظم نے ان پابندیوں کی وضاحت تو نہیں کی تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت مستقبل کے واقعات کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل ترتیب دے گی۔

فرانسیسی پارلیمان کا ایوانِ زیریں گزشتہ ماہ مذکورہ قانون کی منظوری دے چکا ہے جب کہ ایوانِ بالا 'سینیٹ' نے پیر کی شام اس کی منظوری دی۔

فرانس کے وزیرِ خارجہ ایلن جوپ نے تسلیم کیا ہے کہ مذکورہ قانون کی منظوری کا وقت مناسب نہیں تاہم انہوں نے ترکی پہ زور دیا ہے کہ وہ مشتعل نہ ہو۔

فرانسیسی وزیرِ خارجہ نے ترکی اور اپنے ملک کےد رمیان موجود معاشی اور سیاسی تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعمیری تعلقات جلد بحال ہوجائیں گے۔

سینیٹ سے منظوری کے بعد صدر نکولس سرکوزی کو 15 روز کے اندر قانون پر دستخط کرنا ہوں گے جس کے بعد یہ نافذ ہوجائے گا۔ صدر سرکوزی کی جماعت کے قانون سازوں نے قانون کے حق میں ووٹ دیا ہے۔

مجوزہ قانون کے تحت آرمینیائی باشندوں کی ہلاکتوں کو نسل کشی ماننے سے انکار کرنے والوں کو ایک سال قید اور 58 ہزار ڈالر جرمانے کی سزا دی جا سکے گی۔

آرمینیا کے صدر سرژ سرگسیان نے اپنے فرانسیسی ہم منصب کو لکھے گئے ایک خط میں قانون کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی منظوری سے عالمی انسانی حقوق کے ساتھ فرانس کی وابستگی کا اعادہ ہوتا ہے۔

آرمینیا کے صدر نے اپنے خط میں قانون کی منظوری کے لیے صدر سرکوزی کی ذاتی کاوش پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے دنیا بھر میں بسنے والے آرمینیائی نژاد افراد کے لیے ایک تاریخی دن قرار دیا ہے۔

واضح رہے کہ آرمینیائی مورخین کا دعویٰ ہے کہ پہلی عالمی جنگ سے قبل اور اس کے دوران ترکی کی عثمانیہ سلطنت نے تقریباً پندرہ لاکھ آرمینی باشندوں کو قتل کیا تھا۔

کئی ممالک ان ہلاکتوں کو نسل کشی کی منظم واردات قرار دیتے ہیں تاہم ترکی نسل کشی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہتا آیا ہے کہ مقتول آرمینی باشندوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔

ترکی کا موقف ہے کہ اس دور میں آرمینی باشندوں کی اموات خانہ جنگی کے دوران ہوئی تھیں جس میں بہت سے ترک بھی مارے گئے تھے۔

XS
SM
MD
LG